جس کے ساتھ عورت خود کو محفوظ تصور نہ کرے تو وہ مرد نہیں درندہ ہوتا ہے
ایمن لطیف
بات شروع ہوتی ہے 14 اگست سے.. جسے ہم آزادی کے دن کے طور پر مناتے ہیں اور اس خوشی میں مناتے ہیں کہ اس دن ہم آزاد ہوئے تھے، ہمارا ملک آزاد ہوا تھا، آزادی کا مطلب تو ہمارے ذہنوں میں یہی آتا ہے ناں کہ اس ملک پاکستان میں ہر کوئی آزاد ہے چاہے وہ مسلم ہیں یا غیرمسلم، چاہے وہ مرد ہیں یا خواتین، چاہے وہ بڑے ہیں یا چھوٹے، لیکن دیکھا جائے تو اصل معنوں میں ہم آزاد نہیں، ہم نے آزادی کے دن، یعنی حالیہ 14 اگست پر دنیا کو اپنا کیا امیج دیا ہے، مینارِ پاکستان واقعہ کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناح کے پاکستان میں حوا کی بیٹی بھی آزاد ہے، اسے بھی اپنی مرضی سے اس ملک میں جینے کا حق ہے اور بحیثیت ایک عورت اپنے ملک کی آزادی منا سکتی ہے؟ بہت بہت اور بہت افسوس کی بات ہے کہ ایک قوم کی بیٹی اپنے ملک کی آزادی بھی نہیں منا سکتی۔
کیوں؟ کیا ایک بیٹی گھر سے باہر نہیں جا سکتی؟ کیا ایک بیٹی کو اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا ایک بیٹی آزاد ریاست میں آزاد اور بے خوف سانس نہیں لے سکتی؟ آخر کب تک ہم اپنی بچیوں کو گھروں میں قید کر کے رکھیں گے، آخر کب تک بچیوں کو درندگی کا شکار ہوتے دیکھتے رہیں گے؟
ہمارے ملک کے مردوں نے، جو کہ مرد کہلانے کے حقدار نہیں ہیں، آزادی کے دن دنیا کو اپنا اور اپنے ملک کا کیا امیج دکھایا ہے؟
مرد عورت کا محافظ ہوتا ہے اور جس کے ساتھ عورت خود کو محفوظ تصور نہ کرے تو وہ مرد نہیں درندے ہوتے ہیں۔ بہت سے چھوٹے اور تنگ ذہن لوگ یہ کہتے ہیں کہ عورت اکیلی گھر سے نہ نکلے، عورت کا محافظ صرف اس کا باپ، بھائی اور شوہر ہوتا ہے، ایک پرایا مرد عورت کا محافظ نہیں ہو سکتا تو اگر ایک مرد عورت کی حفاظت نہیں کر سکتا، اس کیلئے stand نہیں لے سکتا، اس کیلئے آواز نہیں اٹھا سکتا تو اس کی عزت پے ہاتھ ڈالنے کا اختیار اس کو کس نے دیا ہے؟
مینارِ پاکستان لاہور میں عائشہ کو ہراساں کرنے کیلئے بہت سے درندے آئے تھے لیکن افسوس کوئی ایک بھی غیرت مند اس کو بچانے کیلئے اس بھیڑ میں موجود نہ تھا، بجائے اس کو بچانے کے سب خاموش تماشائی بنے رہے اور یا پھر ویڈیوز بناتے رہے، یہی تو ان کے کردار ہیں۔
اے انسان تجھے تو ہونا تھا فرشتوں سے بھی آگے
ہائے افسوس تو تو درندوں سے بھی بدتر نکلا
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔