بلاگز

کابل: نئے حکمرانوں کی پاکستان سے متعلق پالیسی کیا ہو گی؟

عبدالستار

دسمبر 2001 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد طالبان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ شروع کی اور آخرکار 20 سال کی خونریز جنگ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے افغانستان سے نکلتے ہی افغانستان پر طالبان واپس قابض ہو گئے۔

غزنی، ہرات، قندھار اور لوگر جیسے کئی بڑے اور مرکزی صوبوں کے بعد اس وقت طالبان ننگرہار کے ساتھ ساتھ کابل میں بھی داخل ہو گئے ہیں، سابق صدر اشرف غنی اور نائب صدر امراللہ صالح دونوں کے افغانستان سے نکلنے کی اطلاعات بھی ہیں جبکہ علی احمد جلالی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے تاہم اس حوالے سے تاحال یقینی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔

دوحہ معاہدے کے تحت چونکہ کابل پر طاقت کے زریعے قبضہ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا طالبان کے رہنماؤں نے کابل کے چاروں اطراف داخلی راستوں پر طالبان کے دستوں کو چوکنا رہنے کا حکم دیا ہے اور افغان حکومت کو اقتدار کے انتقال لئے مذاکرات کی پیشکش کی ہے، افغان حکومت اور طالبان کے وفد کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے جبکہ امریکہ کے افغانستان کے لئے نمائندہ زلمے خلیل زاد، امریکی سفیر اور افغانستان کے صدر (سابق) اشرف غنی بھی صلاح مشورے کر رہے ہیں۔

افغانستان کے وزیر داخلہ عبدالستار میرزکوال نے افغان میڈیا کو اپنا ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل شہر کے عوام پرامن رہے اورانہوں نے کہا کہ ایک پرامن معاہدے کے تحت اقتدار منتقل کیا جائے گا، کابل  میں کوئی جھگڑا اور خونریزی نہیں کی جائے گی۔

طالبان نے افغانستان کے تمام اہم سرحدات بشمول طورخم کو قبضے میں لے لیا ہے اور طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ملک کے 34 میں سے 32 صوبوں پر طالبان کا قبضہ ہو گیا ہے، باقی رہ جانے والے دو صوبوں میں پنجشیر اور کابل شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

”افغانستان میں جنگ مسئلے کا حل نہیں”

افغانستان میں بدلتی صورتحال اور تشویش میں مبتلا نیٹو ممالک

افغانستان سے آخری امریکی فوجی کے کوچ کا وقت قریب آ گیا ہے

کابل افغانستان کا دارالحکومت ہے جس میں سب سے زیادہ افغانی زندگی گزار رہے ہیں، کابل ہی میں مختلف ممالک کے سفارتخانے اور اقوام متحدہ کے دفاتر بھی موجود ہیں اس لئے فریقین کی کوشش ہے کہ کابل پر بغیر کسی جھگڑے کے قبضہ کیا جائے۔

امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج کے انخلاء کے فوراً بعد چند دنوں میں افغان طالبان کی برق رفتاری کے ساتھ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے افغانستان پر قابض ہونے پر دنیا حیران ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں مقیم اور افغانستان کے حالات پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی حسن خان بنگش نے بتایا کہ طالبان نے پہلے سے پوزیشن مستحکم کی تھی اور اپنے آپ کو معاشی طور پر مضبوط اور جدید اسلحے سے لیس کیا تھا۔

حسن خان نے کہا کہ افغانستان سے امریکہ کے فوری انخلاء سے افغان فورسز کے حوصلے پست ہو گئے تھے جبکہ افغان فورسز کی وہ قوت بھی نظر نہیں آئی جو افغان حکومت دنیا کو بتا رہی تھی۔ طالبان نے مختلف علاقوں میں لوگوں کے ساتھ روابط رکھے اور مذاکرات بھی کئے اور لوگ بھی مزید لڑائی اور خونریزی نہیں چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ طالبان کو رضامندی کے ساتھ علاقے حوالے کئے جائیں، طالبان پر بین الاقوامی دباؤ بھی تھا کہ عام لوگوں کا قتل عام نہ ہو اور نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جائے کیونکہ طالبان اس وقت بین الاقوامی دنیا کے ساتھ رابطے میں ہیں جس کی وجہ سے ان کی کوشش تھی کہ لڑائی جھگڑے کے بغیر علاقوں کو قبضہ کیا جائے، ہرات میں مشہور افغان کمانڈر اسماعیل خان کے ساتھ اور مقامی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے نے بھی مزید آسانیاں پیدا کیں۔

حسن خان نے بتایا کہ پہلے کی طرح طالبان نے حملے کے بعد لوگوں کو نہ تو لٹکایا اور نہ کسی کو پھانسی دی گئی اور نہ کسی کو مارا پیٹا گیا جبکہ بازاروں اور سرکاری املاک کو تحفظ دیا گیا اور لوگوں کو تسلی دی گئی کہ وہ اپنا روزگا جاری رکھیں، ”طالبان کو اس بات کا احساس ہے کہ افغانستان کی حکومت لینے کے بعد دنیا میں افغانستان کی حکومت کو تسلیم بھی کرانا پڑے گا جس کے لئے انسانی حقوق کا خصوصی خیال رکھا جائے گا تو اس مرتبہ طالبان ایک مختلف پالیسی کے ساتھ عوام کے سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے عوام نے ساتھ دیا اور دوسری جانب لوگ افغان حکومت کی کرپشن کی وجہ سے بھی تنگ آ گئے تھے۔

حسن خان بنگش سے پوچھا گیا کہ کیا طالبان اقتدار میں آ کر افغان عوام کے مسائل حل کرلیں گے جو پچھلی حکومت حل نہ کر سکی تھی، جواب میں انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ طالبان کے ساتھ ایک بین لاقوامی معاہدہ بھی ہوا ہے، اگر طالبان وہ کام نہ کریں جو پچھلے دور میں کرتے تھے تو انٹرنیشنل کمیوینٹی خصوصاً امریکہ کی جانب سے امداد مل سکتی ہے اور اگر کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو اس سے بھی کافی بہتری آ جائے گی۔

حسن خان نے مزید کہا کہ افغانستان میں سب سے بڑا مسئلہ بدامنی کا ہے، اگر امن لانے میں طالبان کامیاب ہو جائیں تو باقی مسئلے ثانوی اہمیت رکھتے ہیں، پہلے ملک میں لڑائی کو ختم کرنا ہے جس کے لئے انٹرنیشنل، ریجنل اور افغان لیڈرشپ چاہتی ہے کہ افغانستان ایک پرامن اور مستحکم ملک ہو جس کے لئے امریکہ، چین اور دیگر ممالک نے طالبان کے ساتھ امداد کے وعدے کئے ہیں لیکن اگر طالبان نے اپنے وعدوں کی پاسداری کی، جن میں لڑکیوں کو تعلیم دینا اور دیگر انسانی حقوق کا خیال رکھنا جبکہ اپنی سرزمین کو دوسرے ملکوں کے خلاف استعمال نہ کرنا شامل ہیں۔

اگر طالبان کو اقتدار مل جاتا ہے تو کیا پاکستان کی بارڈر پر اور اس کے ساتھ متصل قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں حسن خان بنگش نے کہا کہ اگر طالبان اقتدار کے بعد ملک میں امن لانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ سب پڑوسی ممالک پاکستان، چین اور ایران کے لئے فائدہ مند ہو گا لیکن طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد تشویش کی بات یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ روابط ہیں اور انہیں بھی تقویت مل سکتی ہے، لیکن کاروبار کے حوالے سے جب تک افغانستان میں حالات بہتر نہیں ہوتے تو بارڈر اور اس کے نزدیک علاقے ضرور متاثر ہوں گے۔

حسن خان نے کہا کہ جب طالبان کو مکمل طور پر افغانستان میں اقتدار مل جائے تو امکان ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے راستے بھی محفوظ ہوں گے اور پاکستان کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک کو فائدہ ہو گا لیکن اس وقت ایک خطرہ محسوس کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے خلاف جو گروپ اور تنظیمیں موجود ہیں ان کا طالبان کے ساتھ مذہبی رشتہ ہے جس سے انہیں تقویت مل سکتی ہے، اب دیکھتے ہیں کہ طالبان اقتدار میں آ کر پاکستان کے خلاف گروپوں کے حوالے سے کیا پالیسی ہو گی۔

افغنستان میں موجود صحافی طمئین نے اپنے سماجی رابطے ٹوئیڑ پر کہا ہے کہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف خان کا استعفی افغانستان کے مجاہدین کمانڈرز اور سیاسی مشران نے قبول کر لیا ہے اور اب افغانستان کے انتقال اقتدار کی تقریب دوحہ (قطر) میں ہو گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button