‘جشن آزادی صرف باجے بجانے ، ناچنے گانے تک محدود ‘
لائبہ حسن
میں بچپن سے دیکھتی آرہی ہوں کے جیسے ہی آگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو پاکستان ٹیلی وژن پر قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی اور ان کے کوششوں اور قربانیوں پر ایک 14 اقساط پر مخیط ڈرامہ نشر کیا جاتا جاتا تھا جس کا نام ہے "جناح سے قائد تک " یہ ڈرامہ اس وقت کے ہر اک منظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم اس وقت میں جا پہنچیں ہوں اور اس منظر کو دیکھ رہے ہوں ۔ دل میں اک عجیب سا احساس پیدا ہوتا ہے وطن کیلئے محبت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور دل چاہتا ہے اس وطن کی محبت میں سب نثار کردوں۔
اس ڈرامے میں قائد اعظم کا کردار شہریار جہانگیر نے ادا کیا۔ اس ڈرامے میں موجود اور بھی کہیں ایسے کردار تھے جنہیں نہایت خوبصورتی سے ادا کیا گیا ہے جیسا کے مہاتما گاندھی ،عبدررب نشتر ،علامہ محمداقبال اور عبدالکلام آزاد ۔
اس ڈرمے کا مقصد اس دور کی عکاسی کرنا ہے جب پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا اور ہندو مسلم تنازعات اور خون بہا زوروشور پے تھا۔ مسلمانوں کو اپنے حقوق کا پتہ نہیں تھا انہیں اپنے مذہبی ، تعلیمی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔ پھر سر سید احمد خان کا کردار سامنے آتا ہے جنہوں نے مسلمانوں کی تدریس کیلئے علی گھڑ مسلم یونیورسٹی کا قیام کیا ، دوسری جانب قائد اعظم کی ان کوششوں کی منظر کشی کی جاتی ہیں جب وہ مسلمانون کو سیاست میں بیدار کرنے اور انہیں حقوق دلانے کیلئے مسلم لیگ پارٹی کا قیام عمل لاتے ہیں اور آخر میں جب 14 اگست 1947 کو مسلمانوں کو انکا الگ وطن مل جاتا ہے اور قائد اعظم خطاب کرتے ہیں پھر اپنے وطن ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کو ہجرت کے دوران قتل کیا جاتا ہے اس دور سے لے کر لیاقت علی خان کے وزیراعظم مقرر ہونے تک اور پھر قائد اعظم کی طویل عرصہ کی بیماری اور گیارہ ستمبر 1948 کو انکی وفات کے بعد مسلمانوں پر اثرات ہر یک منظر کی بخوبی عکاسی کئی گئی ہے ۔
یہ وہ سنہری دور تھا جس میں ملی نغموں کے ساتھ ساتھ بچوں اور بڑوں کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آزادی میں کردار ادا کرنے والے بڑے بڑے شخصیات کی کارکردگیوں کے حوالے سے تدریس ملتی تھی ۔
لیکن آج جب میں دیکھتی ہوں تو 14 اگست صرف ملی نغموں اور انٹرٹینمنٹ شوز تک محدود رہ گیا ہے دو چار ہی ایسے ڈرامے نشر ہوتے ہیں یا فلمیں جن کا مقصد لوگوں کو وطن عزیز کےلئےدی گئی قربانیوں کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں چند ہی ایسے جوان ہونگے جو آزادی کے مطلب سے آشنا ہیں جنہیں انکے بزرگوں سے سیکھ ملی ہوگی جو آزادی کو محظ ترانوں اور گانوں سے نہیں مناتے بلکہ وہ آزادی کے حقیقی معنوں سے واقف ہیں۔ لیکن ہمارے کچھ ایسے بے خبر نوجوان بھی ہیں جن کیلئے آزادی صرف اور صرف باجے بجانے اور ناچنے گانے تک محدود ہے انہیں آزادی کا صرف اتنا علم ہے جو بچپن سے کتابوں میں رٹا کیا ہوا ہوتا ہے۔ ہمارے بڑے بھی اپنی نسل کو سکھانے اور سمجھانے میں ناکام ہیں ۔ جگہ جگہ سبز جھنڈے لہرانے سے باجے کی پوں پوں سے نغمے لگانے سے آزادی نہیں منائی جاتی ہے ۔
آزادی کی قربانیوں کو سمجھ کر اپنے دل میں ملک کی محبت کا جذبہ لیکر ملک کیلئے کچھ کرنے کا عزم لیکر ملک کی خدمت کرکے قدر کرکے ہی آزادی منائیں ناکہ 14 آگست منا کر سبز رنگوں کو کچرے کے ڈھیر میں ڈال کر کچھرا پھیلایا جاتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتی کہ کوئی جھنڈے نہ لہرائے بلکہ ان جھنڈوں کی حفاظت بھی کی جائے اس کی عزت کئی جائے انہیں کچرا پھیلانے کا سبب نا بنایا جائے۔
آزادی کا حق تو ہم ادا نہیں کرسکتے لیکن اس ملک کے لئے اتنا کرسکتے ہیں کی اسکی عزت کرکے یہاں پر رہنے والی ہوا کی بیٹیوں کی عزتوں کی حفاظت کریں ، معصوم بچیوں کو درندگی کا نشانا بنا کر قتل کرنے والوں کو پھانسی دے کر انہیں عبرت کا نشانہ بنا کر ہی ہم اس مٹی کی حفاظت کرسکتے ہیں ۔