کیا پاکستان مزید افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کر پائے گا؟
سلمیٰ جہانگیر
بچپن سے ہم افغان مہاجرین کواپنے ارد گرد دیکھ رہے ہیں، چاہے وہ ہمارے پڑوسی ہو, دوکاندار ہو یا راہ گیراور اگر یہ کہا جائے کہ میں نے اپنے پڑوس میں پاکستانیوں سے زیادہ افغانیوں کو رہتے ہوئے دیکھا ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ میں جس علاقے میں پیدا ہوئی ہوں اور جہاں میرا بچپن گزرا ہے تو وہاں پاکستانی لوگوں سے زیادہ افغانی لوگ رہتے ہیں۔
لیکن ہم نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا ہے کہ یہ ہمارے اپنے نہیں ہیں۔ انکے ساتھ ہمارے تعلقات اور لین دین میں کوئی فرق نہیں رہا. کیونکہ انکا اور ہمارا تعلق چار دہائیوں سے ہیں۔ جب روسیوں کے افغانستان پر حملے کے بعد زیادہ تر افغانی باشندوں نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کا رخ کیا اور یہاں آکر آباد ہونا شروع ہوۓ اور ایسے آباد ہوۓ کہ افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد بھی نصف سے بھی کم لوگوں نے واپس اپنے ملک کا رخ کیا۔
اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح افغانستان کے رہائشی ملک بدر ہوکر پاکستان آکر پناہ گزین بنے اور کن مشکل حالات سے گزرے. پاکستانیوں نے اس مشکل حالات میں افغانیوں کا ساتھ دیا اور خود بھی تکالیف اٹھائیں.
1979 میں جب سویت یونین نے اپنے فوجی دستے افغانستان بھیج کر ملک میں جنگ شروع کی تواس کے نتیجے میں تقریباً چار سے پانچ لاکھ افغانیوں نے پناہ کے لیے پاکستان کا رخ کیا۔ 1988 میں جنگ کے اختتام پر افغان آبادی کا تقریباً نصف سے زیادہ حصہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔
یہ وقت پاکستان کے لئے بہت بڑا امتحان تھا کیونکہ پاکستان معاشی طور پر اتنا مضبوط نہیں تھا کہ اپنے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو رہائش اور دوسری بنیادی سہولیات فراہم کرے۔1979 میں جب افغان مہاجرین پاکستان پہنچے تو مہاجرین کو چار سو کے قریب کیمپوں میں طویل مدت تک رکھا گیا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے 1995 میں ان کے لئے امداد بند کردی۔ اس کے بعد، پاکستان نے معاش کی کمائی کے مقصد کے لئے پناہ گزینوں کو کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت دی جسکی وجہ سے پاکستان کو عالمی طور پر بہت سی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا. یہ دور پاکستان کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تھا. جب حکومت پاکستان نے افغانی مہاجرین کو اپنے ملک جانے کا حکم دیا نے تو یوں پاکستان کے کندھوں سے بوجھ اترنا شروع ہوا۔
لیکن افغانستان میں سیکورٹی کی موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال کے نتیجے میں شہریوں کی اندرونی نقل مکانی میں اضافہ پھر ہونا شروع ہوا ہے کیونکہ مقامی رہائشی لوگ ان علاقوں سے جہاں طالبان قبضہ جما رہے ہیں۔ اپنی حفاظت کے لئے ان علاقوں میں منتقل ہوتے ہیں جو اب بھی رہنے کے لئے محفوظ ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق رواں سال مارچ سے اب تک کم از کم دو لاکھ ستر ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افغانیوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ تک ہے۔
تقریبا چالیس برسوں سے پاکستان افغان باشندوں کا بوجھ برداشت کر رہا ہے. اگر افغانستان میں جاری طالبان کی جنگ شدت اختیار کرتی ہے تو کیا اب پاکستان مزید افغانیوں کا بوجھ برداشت کر پاۓ گا. ؟
یہ ساری صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان خود معاشی طور پر بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے اور عوام بی روزگاری اور مہنگائی کے مشکل مراحل سے گزر رہی ہے۔ تو ان صورتحال میں افغانی عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا نہایت مشکل ہوجائے گا۔