خواتین کا نوکری کرنے کا فیصلہ اک خواہش یا ضرورت؟
شمائلہ آفریدی
قوموں کی ترقی کا راز فکری ترقی میں ہے، جو قومیں فکری لحاظ سے درست سمت میں ہوتی ہیں اور ان کا طرز فکر درست خیالی پر مبنی ہو پھر انہیں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
قائداعظم نے فرمایا تھا، ”کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ اس قوم کے مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی ملک کی ترقی میں حصہ نہ لیں۔”
معاشرے میں روشن خیالی کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں، انصاف کی فراہمی کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں لیکن اگر کچھ نہیں بدلا تو پشتون معاشرے میں عورتوں کے متعلق سماج کا عمومی رویہ نہیں بدلا اور نہ ہی معاشرے کی سوچ میں ان کیلئے کوئی تبدیلی آئی۔ پشتون سماج خواتین کے متعلق اعتدال کرنے میں روشن خیالی سے ہمیشہ سے محروم ہی رہا ہے۔
ہمارا سماج آج بھی لڑکی کی اعلی تعلیم، گھر سے باہر نکلنے اور ملازمت کرنے سے متعلق تنگ نظر دکھائی دیتا ہے یہاں تک کہ سماج میں عورت باہر مجبوری سے کسی کام کے متلعق نکلتی ہے تو بھی اسے یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر راستے میں کسی رشتہ دار نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گا، کیا کہے گا؟ بدقسمتی سے آج کے دور میں عورت ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوا رہی ہے لیکن ہمارے پشتون معاشرے میں عورت کو گھر کا سودا سلف لانے میں بھی دوسروں کے فرسودہ خیالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورت کسی مجبوری کے تحت نکلتی ہے ان کو احساس ہی نہیں ہوتا۔
ہمارے سماج کی نظر میں ہر وہ لڑکی یا عورت غلط ہے جو گھر سے کسی مجبوری کے تحت نکلتی ہے۔ لڑکی کا اعلی تعلیم کیلئے یونیورسٹی جانا، اعلی شعبہ میں کام کرنا، اپنا کریئر بنانا، سوشل میڈیا کا استعمال کرنا، معاشرے کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا وغیرہ۔ سماج ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے انہیں آوارہ گرد، آزاد، روشن خیال جیسے غلط القابات سے نوازنا شروع کر دیتا ہے۔
ہمارا سماج خواتین کو اپنی زندگی میں خودمختار ہونے کیلئے چھوڑتا ہی نہیں ہے۔ اس جنس زدہ معاشرے میں بے شمار خواتین لڑکیاں نہ ہی گھر میں محفوظ ہیں اور نہ ہی باہر محفوظ، گھر میں انہیں اپنے سگے رشتہ داروں کی بدسلوکی کا نشانہ بننا پڑتا ہے تو دوسری طرف گھر سے باہر قدم نکالتے ہی معاشرہ انہیں مال غنیمت سمجھ کر کبھی گندی نظروں سے تو کبھی بیہودہ جملوں سے نوازتا ہے۔ قدامت پسند سوچ کا نہ صرف دیہی خواتین سامنا کرتی ہیں بلکہ اس کا شکار شہروں میں اعلی تعلیم یافتہ گھرانوں کی خواتین بھی ہوتی ہیں۔
دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں نہ صرف اضافہ ہو رہا ہے بلکہ معاشرے میں ان کے کام، ان کے کردار کو بھی تسلیم کیے جانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ ان کا نوکری کرنے کا فیصلہ خواہش سے زیادہ ضرورت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے گھر اور ملازمت کی ذمہ درایوں کے ساتھ ساتھ انہیں صنفی تعصب اور امتیاز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دور جدید میں بھی پسماندہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی شرح خواندگی میں کمی افسوسناک ہے۔ یہاں قبائلی علاقوں کے خاندان عورت کی تعلیم کے مخالف ہیں، رہی سہی کسر حکومت کی نام نہاد پالیسیاں اور عدم توجہی پورا کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں کی خواتین تعلیم کے زیور سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ہم اپنے ان فرسودہ خیالات کی وجہ سے ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں۔
پشتون سماج کو عورت سے متلعق درست خیالی کو پروموٹ کرنا چاہیے۔ اگر ایک عورت باہر نکلتی ہے، کسی کام کیلئے جاتی ہے، اعلی تعلیم حاصل کرتی ہے، ملازمت کرتی ہے، سوشل میڈیا کا استمعال کرتی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ عورت یا لڑکی غلط ہو گی۔ سماج کے ان منفی خیالات القابات کی وجہ بہت سی خواتین لڑکیاں اپنا روشن کرئیر چھوڑ دیتی ہیں۔ جب ایک خاتون یا لڑکی کسی بہتان کی بھینٹ چڑھتی ہے تو وہ زندہ لاش بن کر دنیا میں جیتی ہے۔ اگر ہم خود کچھ نہیں کر سکتے تو دوسروں کی راہ میں بھی کانٹے بچھانے سے دور رہنا چاہیے۔ اگر ان کی مدد کرنا حوصلہ بڑھانا جیسی نیکیوں سے ہم محروم ہیں تو منفی باتوں سے بھی دور رہنا چاہیے۔
سماج میں درست خیالی کو پروان چڑھائیے، اپنی بیٹیوں بہنوں کو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ علاقے میں جب ایک لڑکی ٹیچر، ڈاکٹر، صحافی یا اسسٹنٹ کمشنر بنتی ہے تو وہ نہ صرف گھر محلہ یہاں تک پورے قوم کی فلاح بہبود کیلئے چمکتا ستارہ بن جاتی ہے۔