پاکستان کی جوبائیڈن انتظامیہ سے کیا توقعات ہیں؟
عبداللہ یوسفزئی
امریکہ کے عام انتخابات میں واضح برتری حاصل کرنے والے جو بائیڈن نے باقاعدہ طور پر 48ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر جو پابندی عائد کی گئی تھی، جو بائیڈن نے اسے ختم کر کے مسلم ممالک کو پہلا تحفہ دیا ہے۔ اسلامی دنیا میں ان کی جو مثبت تصویر بنی تھی جو بائیڈن نے اسے مذید تقویت بخشی ہے۔ مسلم ممالک سمیت پوری دنیا کی نظریں نومنتخب صدر پر ٹھہری ہوئی ہے بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو جوبائیڈن سے کافی سارے توقعات وابستہ ہیں۔
جو بائیڈن سے توقعات رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے، پاکستان کی چند توقعات کا ذکر ہم کریں گے، یقیناً ان میں سے کچھ ایسی توقعات بھی ہیں جو شاید جلد پوری ہو سکیں لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جن کو لے کر مایوسی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پہلی ممکنہ توقع پاکستان یہ رکھے گا کہ امریکہ گرے لسٹ سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کرے گا، گزشتہ سال 21 سے 23 اکتوبر تک ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف جو کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کی روک تھام کا عالمی ادارہ ہے) کے اجلاس میں پاکستان کی طرف سے سفارشات اور پیشرفت کا جائزہ لیا گیا، ایف اے ٹی ایف نے 23 اکتوبر کو یہ کہتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا کہ 27 میں سے چھ سفارشات پر چار مہینے کے اندر عمل کیا جائے یعنی رواں سال کے فروری تک کا وقت دیا گیا ہے۔ پاکستان ان چھ سفارشات پر جزوی طور پر تو کام کر رہا ہے لیکن ٹاسک ممکل نہ کرنے کی صورت میں نو منتخب امریکی صدر کی طرف دیکھے گا تاکہ امریکہ اپنے اثرورسوخ کا استمعال کرتے ہوئے گرے لسٹ سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کرے۔
دوسری توقع پاکستان کی یہ ہو سکتی ہے کہ بائیڈن سرکار عسکری امداد بحال کرے گی، یکم جنوری 2018ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے کر بیوقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا بلکہ وہ ہمیں بیوقوف سمجھتا ہے۔ اس ٹویٹ کے بعد 3 جنوری کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد میں کٹوتی کر دی گئی۔ اب جو بائیڈن ٹیم کے نامزد دفاعی سربراہ جنرل لائیڈ جے آسٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عسکری امداد کی معطلی پاکستان کے تعاون پر اثر انداز ہوئی ہے۔ اس بیان کے بعد امریکہ کی طرف سے عسکری امداد بحال ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
پاکستان کی تیسری توقع افغان امن عمل میں داد وصول کرنے کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔ افغان طالبان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، بائیڈن سرکار نے اس پر عمل درآمد کرنے کا عندیہ دیا ہے، دوسری طرف افغان طالبان نے نئی حکومت آنے سے پہلے امید ظاہر کی تھی کہ بائیڈن معاہدہ جاری رکھیں گے لیکن اس امن عمل میں پاکستان کے کردار کو ٹرمپ انتظامیہ نے ٹھیس پہنچائی تھی جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ اب پاکستان بائیڈن انتظامیہ سے توقع رکھے گا کہ وہ پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرے اور اسے سراہے۔
چوتھی توقع کشمیر کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے حوالے امریکہ کی طرف سے کبھی مثبت رویے کا مظاہرہ نہیں کیا گیا البتہ ٹرمپ انتظامیہ نے ثالثی کی پیشکش ضرور کی تھی لیکن بھارت کی ناراضگی کی وجہ سے یہ پیشکش بھی دفن ہو گئی. پاکستان یقیناً بائیڈن انتظامیہ سے توقع رکھے گا کہ وہ کشمیر ایشو پر گرمجوشی کا مظاہرہ کرے اور پاکستان کے موقف کی تائید کرے۔ کشمیر میں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، جس کی تازہ مثال پچھلے سال لگنے والا کرفیو ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اسکول، ہسپتال اور کاروبار بند تھے اور انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہو چکی تھی۔ پاکستان چاہے گا کہ بائیڈن انتظامیہ مودی سرکار پر دباؤ ڈالے اور اس مسئلے کو قانونی حل کی طرف لے جائے۔
پانچویں توقع پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہو سکتی ہے۔ پاکستان امداد کی بجائے سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہوئے امریکہ سے توقع کرے گا کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔ اس حوالے سے پاکستان نے ایک پیشکش بھی کی ہے کہ سی پیک کے ذریعے جو اقتصادی زونز پیدا ہوں گے، امریکہ ان میں سرمایہ کاری کرے۔