بلاگز

اس دنیا میں صرف اور صرف محنت کا سکہ چلتا ہے

عربہ

دانش کے کئی تقاضے ایسے ہیں جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اپنے لیے مصیبت کا سامان پیدا کرتا ہے۔

دانش کا ایک بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنے وسائل، صلاحیت اور سکت کے مطابق زندگی بسر کرے، ایسی زندگی اعتماد سے، بھروسے سے اور یقین سے متوازن ہوتی ہے، کچھ لوگ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ خود کچھ بھی نہیں کرتے آسرے تلاش کرتے ہیں جبکہ آسرے تلاش کرنے کی ذہنییت انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔

ہمارے اس معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو بہت جلد اپنے مسائل سے ہار مان جاتے ہیں، اکثر یہ سوچ کر کہ فلموں ڈراموں کی طرح جب تک ہاتھ یا انگلی پکڑنے والا کوئی آ نہیں جاتا وہ یونہی بیٹھے رہنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے، ڈراموں میں، فلموں میں ہمیشہ سے یہی دکھایا جاتا ہے نا کہ ہیرو بہت پریشان اور مصیبت میں ہوتا ہے، حالات کو شکست دینے کی پوزیشن میں آ ہی نہیں پا رہا ہوتا اور ایک دم سے کوئی آ کر اس کو سہارا دیتا ہے اور ایک دم سے سب کچھ بدل جاتا ہے، تمام پریشانیاں اور مصیبتی ختم ہو جاتی ہیں اور ہیرو ایک اور نئی زندگی شروع کرتا ہے۔

یہ لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سنیما سکرین پر اس نے جو کچھ بھی دیکھا، وہ فرضی دنیا ہے، کوئی بھی کام ممکن بنایا جا سکتا ہے، غریب کو راتوں رات کروڑپتی بنایا جا سکتا ہے جبکہ حقیقت کی دنیا میں ایسا کچھ بھی نہیں۔

آج کی دنیا کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ حقیقت اور فکشن ایک دوسرے میں اتنے گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ لاکھ کوشش کرنے سے بھی انسان خود کو فکشن سے جدا نہیں کر سکتا، ادھر حقیقی دنیا انتہائی شفاف ہے، اس دنیا میں تو صرف اور صرف صلاحیت اور محنت کا سکہ چلتا ہے اور چاہے کوئی لاکھ کوشش ہی کیوں نہ کرے لیکن پھر بھی دنیا کبھی بھی کسی بھی موڑ پر کوئی رعایت نہیں دے گی۔

کہانیوں کی دنیا تو ایسی ہوتی ہے جس میں ہمیں بہت ہی رحم دل لوگ ملتے ہیں، جو کسی پر ترس کھاتے ہیں، انسان کی زندگی بدل دیتے ہیں، حقیقت کی دنیا میں تو ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اور لاکھوں میں کوئی ایک شخص ایسا ہوتا ہے جسے زندگی بدل دینے والے حالات نصیب ہوتے ہیں۔

عام ادمی کے دل میں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ کبھی نہ کبھی اچانک کچھ ایسا ضرور ہو گا کہ کوئی میری زندگی سے تمام مشکلات اور تمام مصیبتیں دور کر دے گا اور یہی آسرا انسان کو خقیقت پسندی اور عملیت پسندی سے دور کرتا ہے۔ عقل و دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان کو سب سے زیادہ اپنے وجود پر بھروسہ رکھنا چاہئے کیونکہ کسی بھی معاشرے میں بہتر زندگی بسر کرنے والوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے زور بازو سے ہی کچھ بن پائے ہیں۔

ہمارے اکثریتی لوگوں کی طرح ہماری حکومتیں بھی جب کسی مشکل میں پڑ جاتی ہیں تو وہ عالمی اداروں سے امداد مانگتی ہیں، جہاں حکومت اس طرح کے آسرے مانگتی رہے گی تو عام آدمی بھلا کیوں متاثر نہیں ہو گا، ہماری حکومتوں کو سمجھنا ہو گا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے بھی کچھ نہیں ہونا، قوم کو ایسے تجربوں کا تحفہ دیں جس کی مدد سے زندگی کو زیادہ بامقصد انداز سے اور عزت و وقار کے ساتھ بسر کرنا ممکن ہو اور اس کے لئے لازم ہے کہ عام آدمی کی ذہنی تربیت کی جائے اور اسے سمجھایا جا سکے کہ اس کے مسئلے مسائل اس وقت حل ہو سکتے ہیں کہ جب وہ خود اس کو حل کرنے کی کوشش کرے، کوئی اور تو کسی کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا، اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے کہ کوئی کسی کی مدد کرے، یہ مدد بھی وقتی طور پر تھوڑی سی ملتی ہے۔

عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جن کے پاس دولت ہوتی ہے تو ان کے کچھ مسئلے مسائل نہیں ہوتے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، ہر ایک انسان کو مالی اور سماجی حشیت کے مطابق مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ عام آدمی کے مسائل اور جن کے پاس دولت ہوتی ہے ان کے مسائل کی نوعیت کچھ مختلف ہوتی ہے۔

اس لئے چاہئے کہ عام آدمی کے ساتھ دولت مند مدد کریں تو ان کے مسائل کم ہو سکتے ہیں، باقی ہر ایک انسان کو اپنے دم قدم سے اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں، کسی آسرے پہ نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button