بلاگز

عام انتخابات لڑنے والی خواتین کو چیلنجز کا سامنا کیوں ؟

کائنات علی

ہمارے معاشرے  میں مرد کا غلبہ ہے جہاں خواتین کو سیاست سیمت دیگر شعبوں میں پیشہ ورانہ کیریئر کے حصول کے لئے بے شمار چلیجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے  تاہم  اس کے باجود خواتین سیاست سیمت  مختلف شعبوں  میں اپنا لوہا منوا  رہی ہیں۔اگر چہ ایوان میں خواتین ممبران کی تعداد کم ہے  تاہم مساوی مواقع اور مناسب نمائندگی کو یقینی بنانے کے لئے حکومت نے پارلمینٹ کے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں خواتین کے لئے مخصوص نشتیں مختص کی ہیں۔

اگر ہم خیبرپختونخوا اسمبلی پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں  114 میں سے 26 نشستیں خواتین کے لئے مخصوص کی گئی ہیں ۔ اسی طرح  دوسرے صوبوں میں بھی خواتین کی آبادی کے مطابق  نشستیں مخصوص ہیں ۔ زیزرو نشستوں  کے علاوہ  خواتین کو بھی عام نشستوں پر الیکشن  لڑنے کی اجازت ہے لیکن پدرانہ معاشرے کی وجہ سے خواتین کو عام نشستوں پر انتخابات لڑنے کے بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی  میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایم پی اے ثمر بلور  کے سوائے تمام خواتین ایم  پی ایز ریزرو نشستوں پر ہیں ۔ ثمر بلور چونکہ  ہارون بلور کی بیوہ ہیں اور وہ 2018  میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں شہد ہوگئے تھے ۔

مجموعی طور پر عام نشستوں  پر خواتین سیاستدانوں  کی کمی  اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہمارا معاشرہ  خواتین کو بطور سیاسی نمائندہ  قبول کرنے کے لئے پوری طرح  تیار نہیں ہے ۔ خیبرپختونخوا  کے تاریخ میں صرف تین خواتین  ثمربلور، بیگم نسیم ولی خان اور غزل حبیب تنولی عام نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی ۔

عالمی رینکنگ کے مطابق پاکستان عورتوں کی حقوق کی پاسداری کرنے میں  151 نمبر پر ہے ، اسی طرح  سے  اسکور کارڈ پر پاکستان عورتوں   کو اقتصادی  شراکت اور مواقع  میں  150، تعلیمی  حصول میں  143، صحت اور بقا میں 149 اور سیاسی  بااختیار بنانے  میں 93 نمبر پر  ہے۔

پاکستان  میں  2018 کے عام انتخابات میں ووٹروں کی تعداد میں مرد- خواتین  کا فرق 1۔9  فیصد رہا جبکہ مردوں کے مقابلے میں 11 لاکھ کم خواتین  اپنے حق رائے کا استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ  معاشرے میں خواتین پر لگائی گئی پابندیاں ہیں۔

ہمارے ہاں زیادہ تر مسائل تعلیم کی کمی  کی وجہ سے پیش آتے ہیں کیونکہ غیر تعلیم یافتہ خواتین سمجھتی ہیں کہ  ان کی شوہر کا جو بھی فیصلہ  ہوگا   ان  کے لئے ان  کو ماننا شریعت  کے حوالے سے  فرض  ہے اور ہمارے  معاشرے کی اس فرسودہ روایات کی  وجہ سے عورت کو ووٹ ڈالنے  کا حق بھی  نہیں،  اگرچہ بعض خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے  تاہم وہ بھی زیادہ تر شوہر کی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق زیادہ تر عمر رسیدہ خواتین باہر جاتی ہیں اور ووٹ ڈالتی ہیں  جبکہ کم عمر لڑکیوں کو باہر جانے  کی اجازت نہیں اسلئے وہ رائے دینے کے حق سے محروم رہتی ہیں۔

خواتین  کے حقوق  کے تحفظ کے لئے پاکستان میں 1970  کی دہائی سے موومنٹ چلتی آرہی ہے لیکن تاریخ  گواہ ہے کہ  اس کو حکومتی  پروپیگنڈوں  کی وجہ سے غیراسلامی  قرار دیا جاتا ہے اس موومنٹ کا اصلی مقصد خواتین کو بااختیار  بنانا ہے اور خواتین کو قانون سازی میں یکساں  مواقع فراہم کرنے  ہیں جو مردوں کو منظور نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ مساوات تب حاصل ہوگی جب خواتین اور مرد زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں  مواقع، حقوق اور ذمہ داریوں سے لطف اندوز ہوں گے ۔ اس کا مطلب  ہے کہ  طاقت  اور اثر و رسوخ کے تقسیم میں یکساں طور پر اشتراک کرنا اور مالی  آزادی، تعلیم اور  ان کے ذاتی جرائم کو سمجھنے کے مساوی مواقع ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button