گائے تو گائے بکروں کے بھی اتنے نخرے، واہ جی واہ!
محمد فہد
عید قربان کی بس آمد آمد ہے، بچے بڑے سب نے جانور خریدنے کے لیے ایک بار پھر سے منڈیوں کا رخ کیا ہے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ْآج میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ منڈی کا چکر لگا آؤں، میں اسی سوچ میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں میرا ایک دوست گھر آیا اور ساتھ چلنے کو کہا۔ مںڈی پہنچے تو عجیب ہی منظر دیکھنے کو ملا، ہر کسی کو اپنے من پسند جانور کی تلاش تھی، اچھا جانور مل جائے، بعٖض لوگ تو قیمت دیکھ کر خریداری کر رہے تھے، کوئی بکرا دیکھ رہا تھا تو کوئی دنبہ، بچے ضد کر رہے تھے بابا ہمیں تو گائے ہی لینی ہے ہمارے سارے دوستوں نے گائے لی ہے اگر آگر آپ نے نہیں لی تو سب مل کر میرا مذاق اڑائیں گے۔ گرمی بہت شدید تھی، ایسا لگ رہا تھا سورج ابھی آسمان سے نیچے آ جائے گا، منڈی میں جانور بھی گرمی سے بے حال ہو رہے تھے۔
اسی دوران میری نظر ایک جم غفیر پر پڑی وہاں جانے پر دیکھا ایک نہایت ہی خوبصورت بیل آنکھوں کے سامنے آیا، نام اس کا بادشاہ تھا، رنگ میں وہ سفید تھا اور قیمیت اس کی لگ بھگ دس لاکھ تھی۔ لوگ اس خوبصورت جانور کو دیکھنے دور دور سے آئے ہوئے تھے۔
سنت ابراہیمی ویسے تو ایثار، صبر، ہمت حوصلہ اور قربانی کا نام ہے لیکن عید الاضحی کے آتے ہی ملک میں ایک دم سے جو مہنگائی کا طوفان آ جاتا ہے، گھی کی قیمت میں 80 روپے تک کا اضافہ، میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ جب بھی ہمارے ملک میں کوئی تہوار آتا ہے تو مہنگائی کا بحران عوام کے لیے تیار ہوتا ہے۔ جانور اتنے مہنگے، اگر دیکھا جائے تو پچھلے سال ہم نے جو بکرا تیس ہزار تک کا لیا تھا وہ اس سال پچاس سے نیچے تو آ ہی نہیں رہا، مطلب گائے تو گائے اب بکروں کے بھی اتنے نخرے واہ جی واہ!
ایک غریب بندہ پچاس ہزار تک کا بکرا لیتے ہوئے دل میں دس بار تو سوچے گا، دس اور ضروریات کے خیال اس کے ذہن میں آئیں گے، کہیں بیمار ماں کے لیے دوائی لینے کا خیال تو دوسری طرف بہن کو عید پر اس کی پسند کا جوڑا اور چوڑیاں لے کر دینے کی فکر، بچوں کو عید کے کھلونے اور بیوی کے لیے سال بعد عید پر تحفہ دینے کا غم، انساں کو آدھا تو ذہنی مریض بنا دیتا ہے، گھر کا ایک ہی مرد ہے کمانے کو، اس مہنگائی کے طوفان میں معمولی سی تنخواہ کے ساتھ وہ کہاں جائے۔
ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ پہلے ہی محدود آمدنی میں گزارا کر رہے تھے، ان میں سے بھی بہت سے کورونا کی وجہ سے بے روزگار ہو گئے ہیں اور اب انہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی چینی اور کبھی آٹے کا بحران پیدا کر کے ان اشیاء کی قیمتوں کو بڑھا دیا جاتا ہے تو کبھی بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں جس سے غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور مہنگائی سے بے حال لوگوں کی خودکشیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ چاہے کوئی بھی اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ یا ناجائز ذخیرہ اندوزی وغیرہ میں ملوث ہو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ جب تک قانون کی مکمل عملداری نہیں ہو گی اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جائیں گے تب تک معاشرے سے مہنگائی، غربت، بے روزگاری، لاقانونیت اور جرائم کا خاتمہ نہیں کیا جا سکے گا۔
غریب کے لیے کچھ اور قانون اور امیر کے لیے کچھ اور قانون نہیں ہونا چاہیے بلکہ تمام شہریوں کے لیے ایک جیسا انصاف ہونا چاہیے تاکہ غریب عوام کو بھی عزت سے جینے کا حق مل سکے۔
امیر، امیر سے امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا جا رپا ہے، کم از کم حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، جہاں کورونا کے باعث لوگوں کے کاروبار بند ہو گئے ہیں، بال بچوں والے لوگ ہیں اور کمائی کا کوئی زریعہ نہیں، لوگ کیا کریں، کہاں جائیں، ہر ایک میں مرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی، کم از کم غریب عوام کے لیے عید کے موقع پر ایسی حکمت عملی تیار کریں کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ خوشی خوشی اسے گزار سکیں۔