افغانستان کی بدلتی صورتحال کے پاک افغان تجارت پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟
محمد طیب
افغانستان کے کشیدہ حالات میں پاک افغان تجارت کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور دونوں ممالک کے تاجر اور کاروباری برادری کو اس بات کا خدشہ ہے کہ پہلے سے زوال پذیر تجارت کہی مکمل ختم نہ ہو جائے کیونکہ پاک افغان تجارت میں پہلے ہی سے بتدریج کمی کا رجحان تھا لیکن موجودہ حالات نے اس مزید مشکل سے دوچار کردیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان تقریبا 27 سو کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ جڑے ہونے کے ساتھ مذہبی، سماجی اور سیاسی اطوار پر قدرے ممالک ہیں۔ دونوں جانب رہائش پذیر زیادہ تر لوگوں کی رسم و رواج یکساں طرح کی ہیں لیکن ان دونوں ممالک کی پالیسیاں ان کے عوامی نمائندوں کی بجائے کوئی اور طے کررہے ہیں ضد اور ہٹ دھرمیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھانے میں ہمیشہ سے ناکام نظر آتے ہیں۔ دونوں ممالک میں ایک خاص لابی ایک دوسرے کے ساتھ معتصبانہ اور توہین امیز رویہ رکھتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے عام عوام کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے دونوں ہمسایہ ممالک میں تجارت کے وسیع وسائل موجود ہونے کے باوجود دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب نہ آسکے۔
دونوں ممالک کے تجارت میں جہاں حکومتی پالیساں اور معاہدوں نے دونوں ممالک کے تجارتی حجم کو نقصان پہنچایا تو دوسری جانب 40 سال سے افغانستان کے اندر شورش اور بدامنی نے بھی دونوں ممالک کے تاجروں کو مشکلات سے دوچار کیا جس کی وجہ سے تجارتی حجم بڑھنے کی بجائے کم ہوتی گئی۔ دونوں ممالک نے تجارتی حجم بڑھانے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے، دونوں ممالک کے تجارتی راستے اب بہت سے جدید سہولیات سے محروم ہیں ۔چار دہائیوں سے جنگ اور بدامنی کا شکار افغانستان میں آمد و رفت کیلئے جدید سہولتیں ناپید ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی بالخصوص افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر انتظام نہ ہونے کے برابر ہے دیگر سہولیات تو دور کی بات ہے اربوں ڈالر تجارت کا باعث بننے والی ان سرحدوں پر بجلی، ٹیلی فون اور انٹرنٹ کی سہولت بھی مکمل نہیں جبکہ ان سرحدوں پر پاکستانی تاجر شدید مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سے طورخم سرحد پر سامان سے بھرے سینکڑوں ٹرک کئی روز تک کھڑی رہتی ہیں جس کی وجہ سے تاجرو ں کو منافع کی بجائے نقصان کا سامنا ہے۔ زیادہ تر پاکستانی تاجر افغانستان سامان لے جانے سے گریزاں ہیں۔ افغانستان سامان لے جانے و الے ٹرک ڈرائیور اور دیگر عملہ بھی شدید ذہنی اذیت سے دو چار ہیں۔
پاکستانی حکام افغانستان کے ساتھ تجارت کو پانچ ارب امریکی ڈالرز تک پہنچانے کے دعوؤں کو عملی شکل دینے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی دونوں ممالک کے مابین ریلوے لائن بچھانے کے کام پر بھی پیش رفت نہ ہوسکی جبکہ تاجر اب سی پیک کے منصوبے سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔
2002 سے 2012 تک کے دس سالوں کے دوران پاک افغان تجارت کا حجم 33 ارب امریکی ڈالر رہا لیکن حکومتی پالیسیوں اور دونوں ممالک کے حکمرانوں کی ترجیحات کی بدولت یہ تجارت روز بہ روز کم ہوتی جارہی ہے۔ سال 2014-15کے دوران دونوں ممالک کے مابین 1.22ارب ڈالر کی تجارت ہوئی جبکہ 2016 میں ایک ارب ڈالر اور 2018 میں اس میں مزید کمی دیکھنے میں آئی اور یہ تجارت 930ملین ڈالرز تک پہنچ گئی۔سال 2019 میں تجارت کے حجم میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ 1.37 ارب ڈالر لیکن2020 میں ایک بار پھر سے اس میں تیز ی سے کمی دیکھنے میں آئی اور دو طرفہ تجارت مزید کم ہوکر 369 ملین ڈالر رہ گیا تاہم اس سال زیادہ عرصہ کیلئے کوویڈ۔19کی وباء کی وجہ سے سرحدیں بند رکھنی پڑی اور اب جبکہ افغانستان پر ایک بار پھر سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد ملک میں خانہ جنگی کے خدشات بڑھ رہے ہیں جس سے دونوں ممالک کے تجارت پر منفی اثرات پڑیں گے جس تجارتی حجم مزید کم ہوجائیگی۔ مستقبل میں تجارتی حجم بڑھانے کے لیے پاکستانی اور افغان تجارتی طبقے جدید سہولیات اور تجارتی پالیسیوں کو نرم اور آسان کرنے کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد پر مزید تجارتی راستے کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں پاکستان اور افغانستان کے مابین اٹھارہ مقامات پر کراسنگ باردرز ہیں لیکن ان میں تجارت کیلئے آسان راستوں میں خیبر پختونخوا کے راستے طورخم، میران شاہ، انگور اڈہ، غلام خان، خرلاچی،انگور اڈہ کوئٹہ کے راستے چمن سمیت مہمند، باجوڑ،چترال اور دیرکے راستے بھی سرحدیں ہیں لیکن سب سے آسان سرحد طورخم اور غلام خان ہے بالخصوص طورخم سے کابل تک رسائی بہتر روڈ انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہے جہاں دونوں ممالک سے تجارت اور آمد و رفت کا سلسلہ بھی زیادہ ہے۔تاہم ان میں زیادہ تر سرحدیں وقتا فوقتا سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بند رہتی ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر رش طورخم سرحدپر دیکھی جاسکتی ہے تاہم ان سرحدوں پر دونوں جانب سے سہولیات کا فقدان ہے۔
دونوں ممالک کے مابین تجارت میں کمی کے حوالے سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر حاجی غلام علی نے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا ”صرف افغانستان نہیں بلکہ ہمارا تو یہی مطالبہ ہے کہ سارے ممالک کے تمام ممبر ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بہتری لانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں ۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام اور تاجر برادری کی خواہش ہے کہ تجارت اور آمدورفت میں آسانی لائی جائے اور طورخم سرحد پر رش کم کرنے کیلئے دیگرسرحدی گزرگاہیں یعنی غلام خان، نواں پاس اور چترال سمیت دیگر کو بھی کھولنا اور وہاں پر سہولیات کی فراہمی وقت کا اہم تقاضا ہے۔
حاجی غلام علی کا کہنا تھا کہ افغانستان سے پچیس فیصد اشیاء درآمد جبکہ75 فیصد اشیاء پاکستان سے برآمد کی جاتی ہے کیونکہ پاکستان کی صنعتیں فعال ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ تجارت میں آسانیاں لانے کی وجہ سے لاکھوں افراد کو روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے۔ اگر پسماندہ اضلاع کے ساتھ افغانستان کی سرحدوں پر سہولیات فراہم کی جائے اور یہاں سے تجارات اور آمد و رفت کا سلسلہ چل پڑا تو ان علاقوں کے عوام کی مالی حالت میں تیزی سے بہترلائی جاسکتی ہے قبائلی اضلاع میں روزگار نہ ہونے کے برابر ہے یہاں صنعتیں بھی نہیں اور کوئی یہاں سرمایہ کاری بھی نہیں کرتا لہٰذا اگر یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کیلئے نیک نیتی سے کام لیا جائے تو ان علاقوں میں افغانستان کے ساتھ سرحدوں کو کھول کر اور یہاں پر جدید سہولیات فراہم کرکے ایک بڑی تعدا دکو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے جبکہ روڈ انفراسٹرکچ میں بہتری لانے سے دونوں ممالک کے عوام کو اشیاء ضرورت کی آسان فراہمی یقینی بنائی جاسکتی ہے“
تجارتی اور کاروباری طبقوں کے مطابق جب تک دونوں ممالک کے درمیات تجارت کی پالیساں طریقہ کار نرم اور آسان نہیں ہو جاتا دونوں ممالک کے درمیان تجارت نہ ہونے کے برابر ہوگی تجارتی طبقہ دونوں ممالک کے درمیان مزید تجارتی راستے پیدا کرنے کے لیے بھی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے تجارت میں اسانی پیدا ہوگی اور روزگار کے نئے مواقع ملنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ تجارتی راستوں پر آباد علاقوں کو ترقی بھی ملے گی۔