بلاگز

کاش! عید کی وہ رنگینی واپس آجائے جو پہلے تھی

انیلہ نایاب

بچپن کا زمانہ اور ہوتا ہے، ہر چیز مختلف مگر دلچسپ، اور جب بات عید کی آتی تو رنگ ہی کچھ اور ہوتے تھے۔ سارا دن یہی انتظار ہوتا کہ اب بابا اور چاچو منڈی سے جانور لے کر آئیں گے۔ اسی انتظار میں سارے كزنز کے ساتھ مل کر صحن میں کھیلتے کہ کب ہمارے گھر بھی قربانی کا جانور آئے گا۔ یہ انتظار تب ختم ہوتا جب ہمارا خاص مہمان (قربانی کا جانور) گھر آتا، ہم سب خاص خدمت کرنے میں لگ جاتے، کوئی پانی سامنے لا کر رکھتا تو کوئی چارہ ڈالتا، یہ نہیں بلکہ رات کو مہندی گول کر جانور کے لگاتے، جانور سے کافی ڈرنے کے باوجود ہم اس کو ہاتھ لگانے کی کوشش ضرور کرتے تھے۔

صبح اٹھ کر نماز عید کے بعد گھر کے صحن میں بابا اور چاچو لوگ جانور ذبح کرتے، عید کی خوشی کے ساتھ ساتھ اس بات کا دکھ ہوتا کے ہمارا ساتھی ہم سے بچھڑ رہا ہے، ہم سب کزنز گھر کے صحن میں ایک طرف اُداس کھڑے ہوتے۔ لیکن یہ اُداسی چند لمحوں کی ہوتی کیونکہ جب جانور کی کلیجی نکلتی اور دادی کچن میں پکا کر ہم سب کو کھانے کے لیے بلاتی تب بہت مزہ آتا تھا۔

بچپن کے مقابلے میں اب عید کے رنگ پھیکے ہیں شاید، اس کی بڑی وجہ اپنوں سے دوری ہے۔ پہلے کے مقابلے میں لوگ اب الگ گھر میں رہنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں، ایک ہی گھر میں رہنا بچوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے، آج کل ماحول صحیح نہیں ہے، میں بالکل اس بات سے متفق نہیں ہوں، ماحول خود نہیں بنتا بلکہ ماحول ہم بناتے ہیں، تربیت ماں کرتی ہے، اگر ماں بچے کے ذہین میں رشتہ داروں کے بارے میں اچھی بات ڈالتی ہے تو یقیناً وہ اسی پر عمل کریں گے۔ جتنا پیار جتنی محبت بچے کو جوائنٹ فیلمی میں ملتی ہے اتنی محبت اسے اپنے الگ گھر میں نہیں ملتی۔

قربانی کا صرف ایک ہی جانور آتا تھا اور سارے گھر والوں کے حصے اسی ایک جانور میں ہوتے تھے۔ سب مل کر خوشی سے عید مناتے، اپنوں کے ساتھ غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے اور خوشی بانٹنے سے زیادہ ہوتی ہے۔

آج کل لوگ الگ گھر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، الگ رہنے کے ساتھ ساتھ اب قربانی بھی الگ ہوتی ہے، ہر کوئی اپنے لیے قربانی کا جانور الگ لیتا ہے، یہ دکھاوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے تو قربانی کا جانور اوروں سے اچھا اور مہنگا لیا ہے۔

ان لوگوں کی یہ غلط سوچ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ الگ رہنے میں الگ عید منانے میں خوشی ہے، تو یہ بات غلط ہے کیونکہ مل جل کر خوشی منانے سے و خوشی دوبالا ہو جاتی ہے۔

کئی سال ہو گئے ہیں کہ میں نے عید کی وہ رونق نہیں دیکھی جو چند سال پہلے بچوں میں ہوتی تھی، گھر میں چاچو چاچی، تایا جان تائی جان، دادا ابو دادی امی ہوتے، ان کے پیار اور شفقت میں ہر دن گزرتا، کزنز کے ساتھ سارا دن کھیلتے خوشی سب کے ساتھ مل کر گزارتے تو مزہ کئی گناہ زیادہ ہو جاتا تھا۔

کاش! عید کی وہ رنگینی واپس آجائے جو پہلے تھی۔ اپنوں کا ساتھ پھر سے ویسا ہو جیسے پہلے ہوتا تھا۔ اب ویسا مزہ نہیں آتا جو بچپن میں آتا تھا۔ میرے خیال میں اس کی بڑی وجہ لوگوں کی تنگ نظری ہے، یہ بدلتی سوچ کے بدلتے نظریے ہیں

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button