نیوز کے ٹائم مرغے کو آذان کی ذمہ داری یاد آ جاتی تھی!
ناہید جہانگیر
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ سال ڈیڑھ سال قبل، جب کورونا وائرس کے نام سے کوئی واقف نہیں تھا، یہ دنیا ایسی نہیں تھی جس طرح کہ آج ہے، بلکہ اگر دیکھا جائے تو کورونا وائرس انسان کے طرز زندگی پر ہر لحاظ سے اثرانداز ہوا ہے خواہ وہ سیاسی لحاظ سے ہو، معاشی یا پھر سماجی، غرضیکہ ہر لحاظ سے کورونا ہی نئے دور کے نئے اصولوں اور تقاضوں کا تعین کرتا بلکہ کر چکا ہے۔
بہرحال سال ڈیڑھ سال قبل جب کورونا آیا تو دیگر کئی اداروں کی طرح صحافیوں کی ایک اکثریت کو بھی ورک فرام ہوم کی ہدایات ملیں، زوم کے آن لائن اجلاس یا میٹنگز ہونے لگیں اور انہی اجلاسوں میں اکثر بڑی دلچسپ تو کبھی مضحکہ خیز قسم کے حالات سامنے آتے رہتے تھے، کچھ ایسی ہی ایک دلچسپ صورتحال کا سامنا مجھے بھی کرنا پڑا لیکن میرا واسطہ مرغے، چڑیوں اور بلی کی میاؤں سے پڑا تھا، کیسے؟ ابھی بتاتی ہوں۔
ان دنوں میں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک (ٹی این این) میں بطور نیوز پروڈیوسر و اینکر کام کر رہی تھی، ٹی این این انتظامیہ نے ہر کسی کو اپنی اپنی ذمہ داری سونپ دی تھی اور مجھے بھی صبح 11 بجے اور دوپہر 3 بجے نیوز ریکارڈ کرنا اور پھر پارٹنرز ایف ایم ریڈیو کو ایمیل کرنا ہوتی تھی۔
لاک ڈاؤن کے دنوں میں گھر سے آفس کا کام کرنا اتنا آسان نہیں تھا، گھر پر آفس والا ماحول بنانا اور پھر اپنے کام کو ایک پروفیشنل طریقے سے کرنا ایک کٹھن کام تھا۔
یہ نہیں کہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں کسی کی نوکری چلی گئی یا کسی کی تنخواہوں پر کٹ لگ گیا بلکہ کئی اور مسائل سے بھی لوگ دوچار ہوئے جس میں ایک میرے لیے گھر پر معیاری نیوز ریکارڈ کرنا تھا۔ سب سے بڑی مشکل ایک براڈ کاسٹر کے لیے یہ ہوتی ہے کہ وہ خاموش ماحول میں نیوز ریکارڈ کر سکے۔
میرے گھر میں چوتھی منزل پر ایک بہت بڑا سٹور ہے وہی مجھے نیوز ریکارڈ کرنے کے لیے مناسب لگا اس میں ہر قسم کا سامان پڑا ہے تو گونج کا لیول بھی کافی کم تھا، اس لئے اسے ہی بطور ایک عارضی سٹوڈیو کے منتخب کیا لیکن میری بدقسمتی یہ رہی کہ جیسے ہی میں نیوز کے لیے وہاں بیٹھ جاتی پڑوسیوں کے مرغے کو بھی یاد آ جاتا کہ چلو آذان دینا شروع کرو ناہید کے نیوز کا ٹائم ہو گیا ہے۔
اس کے چپ ہونے کے انتظار میں نیوز لیٹ ہونے کا خدشہ رہتا اور پھر جب اللہ اللہ کر کے مرغا خاموش ہو جاتا عین اس ٹائم چچا کے گھر سے طوطوں اور چڑیوں کی چوں چوں کی آ وازیں آنا شروع ہو جاتیں اور نیوز لیٹ ہونے کی وجہ سے مجبوراً ریکارڈ کر کے ایمیل کر دیتی۔
صرف یہی نہیں بلکہ کبھی پڑوس میں بچوں کے رونے یا چیخنے کی آوازیں شروع ہو جاتیں تو کھبی موٹر سائیکل یا گاڑی کے ہارن کی آواز کانوں میں گونجتی۔
ان دنوں ٹی این این کی نیوز تقریباً 11 ایف ایم ریڈیوز سے نشر کی جاتی تھی۔ یہ پانچ منٹ کی نیوز پشتو زبان میں ریکارڈ ہوتی جس میں زیادہ تر مقامی خبروں کو شامل کیا جاتا تھا۔ ان 11 میں سے اکثر چینلز نیوز کو نشر کر بھی دیتے تھے لیکن ایک آدھ ریڈیو ایسا تھا جو خبریں ڈراپ کر دیتے اور ساتھ ہی ٹی این این نیوز ڈائریکٹر کو میسج بھی کر دیتے تھے کہ نیوز کے ساتھ یہ یہ مسئلہ تھا۔
پروفیشنلی بات کی جائے تو واقعی نیوز میں تھوڑا سا بھی فرق ہو تو ایک ادارہ اس کو ریجیکٹ ہی کرتا ہے لیکن ورک فرام ہوم کے دنوں میں کہاں سے ممکن تھا کہ سٹوڈیو والی کوالٹی سٹور میں بھی ہو۔ میں ایک صحافی ضرور ہوں لیکن گھر میں سٹوڈیو تو بنایا ہے نا ہی ہے۔
میری مشکل یہاں ختم نہیں ہوئی، ایک دن تو حیرت کی انتہا ہی ہو گئی جب سٹور جا کر دیکھا تو بلی نے ایک نہیں دو نہیں 4 بچے دیے تھے اور ان کی میاؤں میاؤں تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
خیر اللہ اللہ کر کے وہ دن بھی بیت گئے اور لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد واپس دفت آنا جانا شروع ہوا تو ہی سب کی طرح میں نے بھی سکھ کا سانس لیا۔