ضم اضلاع کیلئے 55 ارب روپے، اونٹ کے منہ میں زیرہ!
مولانا خانزیب
اس سال کے سالانہ وفاقی بجٹ میں خیبر پختونخوا کے نئے اضلاع کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے محض 55 ارب روپیہ رکھا گیا ہے جو اونٹ کی منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ اس پسماندہ علاقے کی تیز ترقی کے حوالے سے حکومت بلند بانگ دعوے تو کرتی ہے تاہم حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔
تقریباً تین سال قبل پچیسویں آئینی ترمیم میں جو بنیادی وعدے کئے گئے ان میں این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد شیئر کے ساتھ دس سالوں میں ایک ہزار ارب اور سالانہ طور پر سو ارب کا اجراء شامل تھا۔ چونکہ ان اضلاع میں ماضی میں سماجی ترقی کے حوالے سے کسی قسم کا انفراسٹرکچر موجود نہیں تھا بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ پتھر کے دور کی زندگی تھی اور بقول عبد اللطیف آفریدی ان علاقوں میں اگر آپ نے رہنا ہے تو اس کی رہائش ایک ہوٹل جیسی ہے جہاں آپ نے باہر کمانا ہے اور ہوٹل میں آ کے پیسہ دے کر روٹی کھانی ہے۔
پسماندہ علاقے کو ترقی کے دھارے میں لانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اور پھر ایک ایسا علاقہ جس کی وجہ سے ریاست کو ماضی میں بیشمار فوائد ملے ہیں اس کی محرومیوں کا خاتمہ فرض اولین ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ماضی میں بھی ان علاقوں کو پرائی جنگوں کا ایندھن بنا کر یہاں کے لوگوں کا استحصال کیا گیا تھا جبکہ اب بھی ان علاقوں کو قانون کی عملداری آنے کے بعد پختونخوا کے حکمران اپنے آپ پر ایک بوجھ سمجھ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان اضلاع کے حوالے سے جب سال کے آخر میں یہ رپورٹ آئی کہ پچھلے مالی سال کے دوران جاری یونے والی رقم کا بڑا حصہ عدم استعمال کی وجہ سے واپس کیا گیا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان علاقوں کی ترقی کو حکومت کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
اگر فنڈز بروقت استعمال نہیں ہو سکے تو کیا یہ محکموں کی غفلت ہے، سرکاری اہلکاروں کی نااہلی ہے یا وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کی کوتاہی ہے؟ محکموں کی غفلت کے باعث سرکاری محکمے اگر صرف 24 ارب 88 کروڑ روپے ہی نو ماہ میں خرچ کر سکے تو کیا باقی رقم کے لئے جون کا انتظار کیا جاتا رہا؟
محکمہ خزانہ کی دستاویزات کے مطابق قبائلی اضلاع میں سب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز روڈ سیکٹر کو جاری کئے گئے ہیں، محکمہ تعلیم 11ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ میں سے تین ارب، محکمہ صحت 10 ارب میں سے دو ارب 90 کروڑ جبکہ ملٹی سیکٹر ڈویلپمنٹ کے تحت 8 ارب میں سے ایک ارب 60 کروڑ روپے خرچ ہو سکے۔
کسی علاقے کی محرومی کے خاتمے کیلئے آواز اٹھانا ان علاقوں کے منتخب نمائندوں کا فرض منصبی ہوتا ہے جو قانون ساز ادارے میں اپنے علاقے کیلئے زیادہ سے زیادہ حقوق کے حصول کیلئے مستعد ہوتا ہے مگر ان علاقوں کی بدبختی ہے کہ باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک قومی اور صوبائی اسمبلی کے اسی فیصد نمائندگی پر حکمران جماعت کے لوگ بیھٹے ہیں مگر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں سب نے چپ سادھ لی ہے، اکثر اپنے حلقوں میں آ کر کوچہ، ایک ایک سولر لائٹ اور نالیوں کا افتتاح کر رہے ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کے کارندے ان کے ان مصروفیات کو انقلاب سے تشبیہ دے کر اس کی تشہیر کرتے تھکتے نہیں مگر قومی اور صوبائی اسمبلی کے فلور پر ان کی موجودگی عنقاء ہوتی ہے، ان سے اتنا تک نہیں ہو سکتا کہ اپنی حکومت کے کرتا دھرتاؤں کو آئین کے تحت وہ وعدے یاد دلائیں جو ان کے علاقوں کے ساتھ وفا ہونے ہیں۔
پختونخوا کے ان نئے اضلاع کی ترقی کیلئے اقدامات نہ اٹھانے میں ایک طرف اگر وفاقی اور صوبائی حکومت مجرمانہ کردار ادا کر رہی ہے تو دوسری طرف ان علاقوں کے حکمران جماعت کے نمائندے بھی شریک جرم ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ ان نمائندوں کی اپنی حکومت میں کوئی توقیر نہیں اگر ہوتی تو کم از کم ان علاقوں کو مسلسل تین سال سے نظر انداز نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح اگر ہم ان علاقوں کی تعلیمی پسماندگی کی بات کریں تو تعلیمی شرح کی کمی کے ساتھ کم اور محدود وسائل بھی اس محرومی کا سب سے بڑا سبب ہے، باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک ایک یونیورسٹی نہیں ہے جس سے تعلیمی بدحالی کی عکاسی ہوتی ہے، سکولوں کی عمارات بوسیدہ ہو چکی ہیں پانی اور دیگر سہولیات کی عدم دستیابی اس بات کو تقویت دے رہی ہے کہ بچے سکول کو چھوڑ رہے ہیں اور تعلیم کی شرح پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ان علاقوں میں 69 فیصد لڑکے اور 79 فیصد لڑکیاں کلاس پنجم تک سکول چھوڑ دیتے ہیں، مڈل اور سکینڈری سکول لیول پر مزید 50 فیصد لڑکیاں تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھر بیٹھ جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں کل 5,890 سکول ہیں جن میں رجسٹرڈ طلبہ کی تعداد 677,157 ہے۔ قبائلی اضلاع کے بیشتر سکول بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، مثلاً محض 43 فیصد سکولوں میں بجلی کی سہولت میسر ہے جبکہ محض 42.2 فیصد سکولوں میں پینے کا پانی دستیاب ہے، 45 فیصد سکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت ہے جبکہ 70 فیصد سکولوں کی چار دیواری ہے۔
قبائلی علاقوں میں اساتذہ کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ ان اضلاع کے سکولوں میں 20709 ٹیچرز موجود تھے جن کی تعداد اب 18,621 رہ گئی ہے، سابقہ فاٹا کی درسگاہوں میں 5000 آسامیاں خالی پڑی ہیں جن میں ٹیچرز کے علاوہ دیگر عملہ بھی شامل ہے۔ قبائلی علاقوں میں تعلیم نسواں کی شرح بھی محض تین فیصد ہے۔ مزید یہ کہ کے پی حکومت نے پرائمری سطح پر تمام کتب کو انگریزی زبان میں منتقل کر دیا، جس کا اطلاق قبائلی علاقوں کے سکولوں پر بھی ہوا ہے۔
قبائلی علاقوں کے ٹیچرز کسی طور پر ایسی قابلیت کے حامل نہیں کہ وہ انگریزی زبان میں تبدیل ہو جانے والا نصاب طلبہ کو بہ آسانی پڑھانے کی ذمہ داری ادا کر سکیں۔ قبائلی اضلاع میں اب بھی 1940 کے حالات کے مطابق 100 طلبہ کو دو ٹیچرز دو کمروں میں تعلیم دے رہے ہیں جو کسی طور پر جدید تدریسی اصولوں کے مطابق نہیں۔
کے پی میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں کا 1500 سکولوں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچانا بھی تعلیمی سرگرمیوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا ہے جبکہ نئے اسکولوں کا نہ بننا اور اس کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں رقم مختص نہ کرنا تعلیمی پسماندگی کے حوالے سے مزید مسائل کا سبب بنی گی۔