جب شادی کی دعوت دینے کے لیے پورا خاندان اکٹھا ہوجاتا
سٹیزن جرنلسٹ سلمیٰ جہانگیر
کیا زمانہ تھا جب شادی بیاہ یا کسی اور خوشی کے موقع پر اپنوں کو بہت پیار اوردل سے دعوت دی جاتی تھی.
کچھ سال پہلے شادی بیاہ کی تقریب کی تاریخ طے پاتی تو لڑکے کے گھر والے تمام رشتہ داروں کا خیال رکھتے تھے اگر لڑکا گھر کا بڑا ہوتا تو وہ خوشی پورے خاندان کی خوشی تصور ہوتی اور اسکی شادی کی دعوت دینے کے لئے ماموں, چچا خالہ اور پھوپھی کی بیٹیوں کو خاص طورایک دن پہلے بلایا جاتا اور اگلی صبح کسی بڑی گاڑی میں سب کو بٹھا کر دور دراز علاقوں کے لئے نکل پڑتے.
شادی کا یہ (سدہ) دعوت نامہ صرف لڑکیوں پر مشتمل نا ہوتا بلکہ اس میں ممانیاں, خالائیں, چچیاں اور کچھ ہمسائیاں بھی شریک ہوتی۔ ان سب خواتین کے ساتھ کسی مرد کا ہونا بھی بہت لازمی ہوتا تھا کیونکہ شادی پر صرف عورتوں کو نہیں مردوں کو بھی بلایا جاتا تھا اور یوں تقریباً تیس پینتیس لوگوں پر مشتمل یہ سدہ نکلتا. کوشش ہوتی کہ ایک دن میں دور دور رہنے والے جتنے بھی رشتہ دار ہوتے انکے گھر جا کر دعوت دی جائے. شادی کے لئے چھپے ہوئے کارڈز بھی تقسیم ہوتے یعنی زبانی دعوت کے علاوہ کاغذی دعوت نامہ بھی دیا جاتا تھا.
میرے ماموں کی شادی کا دعوت نامہ بھی کچھ ایسا ہی تھا چونکہ وہ چار بہنوں کا اکلوتا بھائی اور گھر کا اکلوتا بیٹا تھا تواسکی شادی بھی پورے خاندان کے لئے بہت ہی خوشی کی بات تھی. نانی اماں نے اپنی ساری بیٹیوں کو بمع اہل وعیال کچھ دن پہلے بلایا تھا اور سدے والے دن ہم سب صبح صبح تیار ہوئے اور روانہ ہو گئے. اس سدے میں خالاوں کے علاوہ لڑکے کی کزنز اور انکے بچے بھی شامل تھے سب تیار ہو کر سوزوکی میں بیٹھ گئے سوزوکی میں جگہ کم پڑ گئی کیونکہ بچوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ تھی.
پورا دن دعوتیں اور شادی کارڈز دینے کے بعد بہت بھوک لگی تھی چونکہ گرمی کا موسم تھا اسی لئے کسی بھی گھر والے نے شربت سے زیادہ کھانے پر اصرار نا کیا بھوک بہت تھی اور ہماری تعداد بھی۔
چونکہ اس زمانے میں بغیر اطلاع دئیے لوگوں کے گھر اچانک جانے کا رواج تھا تو کوئی میزبان ذہنی طور پر تیار نا تھا شائد اسی لیے بھی کسی نے کھانے کے لیے اصرار کرنا مناسب نا سمجھا. آخر کار ایک گھر والوں کو ہم پہ رحم آگیا اور کھانے کی تیاریاں شروع کی جب ہمیں دیسی گھی اور گرم گرم تندوری روٹیوں کی خوشبوؤں نے اپنے حصار میں لیا تو ہم سب بچوں کے چہروں پر رونق اور چمک آگئی.
ایسا اسی لیے بھی ہوتا جب بہت سارے لوگ ایک ساتھ بغیر بتائے کسی کے مہمان بنتے لیکن یہ پرانے زمانے کا رواج تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ کہیں کھو گیا ہے.گھڑی کی سوئیوں نے جب وقت کا پہیہ گھمایا تو آہستہ آہستہ رسم و رواج بھی بدلتے گئے
پھر ایک وقت آگیا جب گھر کے دو افراد ہی دعوت دینے جاتے جن میں گھر سے ایک مرد اور ایک خاتون شامل ہوتے آہستہ آہستہ یہ رواج بھی تبدیل ہو گیا اور دعوت دینے کے لیے ٹیلی فون کا استعمال ہونے لگا کیونکہ پھر وہ زمانہ آگیا تھا جب ہر گھر میں موبائل فون موجود ہوتا. اگر گھر کے تمام افراد کے پاس موبائل فون کی سہولت نا بھی ہوتی تب بھی گھر میں کسی ایک شخص کے پاس یہ سہولت ہوتی اور اسی کو ہی فون پر دعوت دی جاتی اور سب خوشی خوشی شادی بیاہ میں شریک ہوتے.
لیکن آجکل ایسا زمانہ آگیا ہے کہ فون کالز کی بجائے واٹس ایپ پر شادی کارڈ کی تصویر لیکر کر گروپ میں ڈال دیتے ہیں اور یہ دعوت تصور کیا جاتا ہے.
نئی ٹیکنالوجی ہمارے رواجوں پر بہت اثر انداز ہوئی ہے جہاں سب تبدیل ہو گیا ہے وہاں ثقافت اور رسم و رواج نے بھی تبدیلی کی چادر اوڑھ لی ہے جو خوبصورتی پہلے زمانے کی دعوتوں(سدہ) میں نظر آتی تھی وہ کہیں کھو گئی ہے اور رہی سہی کسر کورونا وبا نے پوری کر دی. ہمیں موجودہ دور میں بھی اسی زمانے کے کچھ رسموں کو لیکر آنا ہے تاکہ وہ محبتیں برقرار رہیں.