دادی کو دودھ، کزن سے گپ شپ ثمینہ کی موت بن گئی
رانی عندلیب
پشتون معاشرہ جہاں اتفاق سے مل جل کر رہنے، غمی اور خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے جیسے اچھی رسوم یا رواج کے لیے مشہور ہے وہیں کچھ ایسی رسوم اور رواج بھی ہیں جو اس قوم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں جن میں ”سورہ”، ”تور” اور غگ وغیرہ شامل ہیں لیکن آج ہم اس بری رسم ”تور” پر بات کریں گے۔
خواتین کو ہر دور میں مختلف معاشرتی مسائل کا سامنا رہا ہے، عزت یا غیرت کے نام پر قتل ان میں سے ایک عمومی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے، دنیا بھر میں خواتین اپنے رشتے داروں اور اہل خانہ کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
عرب خاندانوں میں روایت ہے کہ بچپن سے بہنوں کی سرپرستی کے لیے بھائیوں کو مقرر کیا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ بہن کہیں بھی جائے، والد یا بھائی کی سرپرستی میں جا سکتی ہے، گھر سے باہر آنا جانا، بہنوں کی تعلیم، ان کی شادی یہاں تک کہ لباس میں بھی بھائیوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔
پرانے زمانے میں عرب میں جاہلیت کا جو دور تھا میرے خیال میں وہ پشتون معاشرے میں آج بھی قائم و دائم ہے، خواتین قربانی کا بکرا ہیں۔
آج مجھے پشتون معاشرے میں پلی بڑھی ثمینہ نامی ایک دوشیزہ کی یاد جانے کیوں آ رہی ہے جس کو غیرت کے نام پر اس لیے قتل کیا گیا تھا کہ جھوٹی افواء پورے گاوں میں پھیل گئی تھی۔
ثمینہ اپنی دادی کو دودھ دینے ان کے گھر گئی، دادی کا گھر پاس ہی تھا، ثمینہ نے امی کو بتایا کہ وہ 20 منٹ میں واپس آئے گی، دادی کا گھر کافی بڑا تھا، دادی کو دودھ دے کر گھر آ رہی تھی کہ اس کی کزنز نے روک لیا کہ تھوڑی دیر ہمارے پاس رک جاؤ، اب ثمینہ کزنز کے ساتھ گپ شپ میں ایسی مگن ہوئی کہ وقت کا پتہ بھی نہیں چلا اور شام کی آذان ہو گئی۔
دوسری طرف ثمینہ کے گھر والے پریشان ہو گئے کہ ثمینہ کہاں رہ گئی، کیونکہ اس نے 20 منٹ کا کہا تھا اور شام ہو گئی تھی، ثمینہ کے والد اس کی دادی کے گھر آئے کہ ثمینہ ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تو دادی نے بتایا کہ کہ وہ اسی وقت واپسی گھر چلی گئی تھی جبکہ ثمینہ دادی کے گھر پہ اپنی کزنز کے کمرے میں گپ شپ میں مصروف تھی۔
پورے گاؤں میں ثمینہ کی گمشدگی کا اعلان ہو گیا کہ ثمینہ کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ جب گھر میں شور ہوا تو ثمینہ اور کزنز کمرے سے باہر آئیں لیکن تب تک یہ جھوٹی افواء پھیل چکی تھی۔
ثمینہ رونے لگی کہ اب کیا ہو گا۔ اس نے والد اور بھائی کو بتایا کہ کوئی بھی لڑکا نہیں ہے، آپ لوگوں نے ”تور” (الزام) لگایا ہے، والد نے کہا کہ اب گاؤں میں یہ خبر پھیل چکی ہے، اگر تمہیں قتل نہ کیا تو تمہارے والد کی بدنامی ہو گی، یہ اب ہماری عزت کا سوال ہے۔
ثمینہ زار وقطار اپنے والد اور بھائیوں کے سامنے رو رہی تھی، والدہ نے بھی بہت منت سماجت کی لیکن کسی نے ان کی ایک نا سنی اور اگلے دن اسے درخت کے ساتھ باندھ کر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔
عزت، غیرت اور جھوٹی انا کے نام پر حوا کی نہ جانے کتنی بیٹیاں روزانہ خاک میں ملا دی جاتی ہیں جن کا پوچھنے والا کوئی نہیں۔