غربت کوئی طعنہ نہیں، بیٹی سب کو عزیز ہوتی ہے
تارا اورکزئی
سسرال میں ہم کسی اور کی بیٹی کو طعنہ تو دیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ہماری بیٹی بہن بھی کسی کے گھر میں ہے۔
بہت سی ایسے حقوق ہیں بہنوں کے جنہیں ہم لوگوں نے رسم رواج بنا رکھا ہے، اکثر شادی بیاہ، عیدین یا اس طرح کے دیگر خاص مواقع پر اکثر مائیں اپنی بیٹیوں کے ہاں تحفے تحائف ارسال کتی ہیں، بسااوقات کھانے کی چیزیں ہوتی ہیں یا عید کے لئے کپڑے یا کچھ پیسے، لیکن ہماری بہت سی بہنیں ایسی ہیں جن کیلئے یہ چیزیں خوشی کی بجائے درد سر کا باعث بنتی ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ایسی ہی ایک بہن نے بتایا کہ جب رمضان آتا ہے تم میرے دل میں وہم سا ہوتا ہے، پریشانی ہوتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو میری امی یا اور گھر والے میرے لئے کچھ ایسی چیز بھجوائیں جو میرے سسرال کو پسند نہ آئیں یا کم لائیں تو پھر طعنوں کا انبار ہو گا، میری امی کا گھرانہ غریب ہے وہ اپنے اخراجات بھی بمشکل برداشت کرتے ہیں، لیکن اکثر رمضان ہو یا عید امی یا بھائی میرے لیے کچھ چیزیں لاتے ہیں اور پھر سسرال والوں کے طعنے ہوتے ہیں، طرح طرح کے، جو مجھے سننا پڑتے ہیں، ” اسے دیکھو ایسے بیٹھی ہے جیسے بوریوں میں اس کے لئے سامان آیا ہے، ٹرک کھڑا ہے باہر سامان سے لدا، ہم مہینوں گھر کے خرچ سے بے غم ہو گئے ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ یہ تمام باتیں سن کر ان کا کلیجہ پھٹنے کو آ جاتا ہے، ”ایسے جیسے کسی نے میرے اوپر تیزاب پھینکا ہے، میرا دل جلتا ہے، میں کیا بتاؤں اس ٹائم مجھ پہ کیا تکلیف گزرتی ہے۔”
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہمارے سماج میں اس طرح کے رویے کب تک جاری رہیں گے، ہماری سوچ کب بدلے گی، آخر ہمیں اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ جس طرح ہم اپنی بیٹیوں کو چاہتے اسی طرح دوسروں کو بھی ان کی بیٹیاں عزیز ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ دوسرے کی بیٹی کے ساتھ جیسا سلوک ہم کرتے ہیں اسی طرح کا سلوک ہماری بیٹی کے ساتھ بھی روا رکھا جا سکتا ہے؟