”بچپن کی یادیں! گویا بات برسوں کی نہیں کل پرسوں کی ہے”
رانی عندلیب
بچپن کی بہت ساری حسین اور خوبصورت یادیں جب ہم جوانی کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں تو ہمارے ذہنوں اور ہمارے ذہنوں کے دروازوں کو نہ صرف کھٹکھٹاتی ہیں بلکہ کبھی کبھی بچپن کی بہت ساری یادیں ذہن میں ایسے تازہ ہو جاتی ہیں گویا بات برسوں کی نہیں کل پرسوں کی ہے۔
مجھے یاد ہے جب ہم اپنے گاؤں جاتے تھے تو اس زمانے میں ٹیلیفون، فیس بک اور واٹس اپ کا تصور بھی نہیں تھا، ٹیلی فون تو خیر تھا لیکن اتنا خاص نہیں تھا جتنا اب ہے۔ متوسط گھرانوں تک میں ٹیلی فون کی سہولت نہیں ہوتی تھی، ٹیلی فون پورے گاؤں میں صرف کسی ایک گھر ہی میں ہوتا تھا۔ وہ گھر بھی خاص گھرانوں میں سے ایک ہوتا تھا، سب لوگ بہت آس بھری نظروں سے اس گھرانے کو دیکھتے تھے کیونکہ ٹیلی فون بھی ایک عجوبہ سمجھا جاتا تھا۔
سارے گاؤں کے رشتہ داروں کے فون کالز اور رابطے اسی ایک ٹیلی فون کے ذریعے ہوا کرتے تھے وہ بھی کسی خاص مواقعوں پر اس لیے گاؤں جانے سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو اطلاع نہیں دی جاتی تھی کہ ہم اس دن کو یا اس وقت آ رہے ہیں، اب تو ہم باقاعدہ پیشگی پیغام بھیجتے ہیں، صرف خوشی کی خبر اسی ٹیلی فون پر دی جاتی تھی، اس کے علاوہ ہمارا تعلق رشتہ داروں سے ان کے گھر جا کر یا وہ لوگ ہمارے گھر آ کر بنا ہوتا تھا۔
راستے لمبے تھے یا ہمیں محسوس ہوتے تھے لیکن سواری کے لیے بہت مشکل ہوتی تھی۔ جب میں چھوٹی تھی تو ہم گاؤں جانے سے ایک دن پہلے سامان پیک کر لیتے تھے، اگلے دن صبح سویرے آذان کے ساتھ امی جگا دیتیں، ہم بھی خوشی خوشی اٹھ کر تیار ہوتے اور گاؤں کے لیے گھر سے روانہ ہو جاتے تھے۔
گھر سے نکلنا اڈے جانا، اڈے میں گاڑی کا انتظار کرنا، ہم گاؤں والی گاڑی میں بیٹھتے پھر راستے میں بار بار سواری اترتی اور چڑھتی تھی، اس طرح دو تین گھنٹے لگ جاتے لیکن ہم اس کو خوب انجوائے کرتے، ہنستے بستے ہمارا راستہ کٹ جاتا، گاڑی سے اترتے تو تانگے میں بیٹھ جاتے۔
تانگے سے یاد آیا۔ آج کل تو تانگے کی سواری نایاب ہوتی جا رہی ہے، تانگے کی سواری میری فیورٹ تھی۔ یہ بھی ایک الگ سی کہانی ہے۔ تانگے میں بیٹھ کر گاؤں کی خاموش سڑک پر تانگے سرپٹ دوڑتا، ٹک ٹک ٹک۔۔ سڑک کے دونوں اطراف ہرے بھرے کھیت اور بیچ میں ہمارا تانگہ چلتا تو میری خوشی کی انتہا دیکھنے کے لائق ہوتی تھی۔ ڈھلتے دن کو ہم گاؤں پہنچ جاتے تھے۔ اس طرح ایک ایک رشتہ دار کے گھر جاتے تو دو تین دن گزارے بغیر گاؤں سے گھر واپسی ممکن نا ہوتی تھی۔
بچپن میں جو پیار اور محبت گاؤں میں اور رشتہ داروں میں تھا، ہر ایک دوسرے پر مر مٹنے کے سچے جذبے سے سرشار، لیکن وہ سب جذبے آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ پیکے ہوتے گئے، وہ پیار محبت کے جذبے، سب کے سب وقت کے ساتھ ساتھ کم بلکہ ختم ہوتے گئے۔
موجودہ جدید دور میں جدید آمدورفت کی بہت ساری سہولیات کے ساتھ میری وہ بچپن کی کہانی بے رنگ ہو گئی ہے۔
وہ کہانی جس میں ہم تمام بچے، ہر قسم کی ٹینشن سے آزاد اپنے رشتہ داروں کے گھر خوشی سے جاتے، اپنے پرانے دوستوں سے ملتے تھے، ان کے گھر جاتے ہوئے راستے میں پگ ڈنڈی اور سرسوں کے کھیت دیکھتے، کھیتوں میں تتلیاں پکڑتے اور ساگ کاٹتے، مختلف قسم کے باغوں سے پھل توڑتے، پھولوں کو ہاتھوں میں لیتے لیکن۔۔ لیکن یہ مستیاں اور ہنسی مذاق اس وقت تک تھا جب یہ راستے لمبے تھے، ایک دوسرے سے محبت زیادہ تھی، اب راستے چھوٹے ہو گئے، ہم ایک دن میں گاؤں کیا پشاور سے چند گھنٹوں میں دبئی بھی پہنچ سکتے ہیں لیکن اب وہ سوچ، محبت، عشق اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا جذبہ بھی چھوٹا بلکہ ختم ہو گیا ہے۔ جہاں ان تمام سہولیات نے ہماری زندگی میں آسائشیں پیدا کی ہیں تو دوسری طرف زندگی سے محبت اپنائیت بھی انہی چیزوں نے ختم کر کے رکھ دی ہے۔