”خدا کا واسطہ مجھے اس شخص کے ساتھ نہ بھیجیں، یہ مار ڈالے گا مجھے!”
افتخار خان
”خدا کا واسطہ مجھے اس شخص کے ساتھ نہ بھیجیں، یہ مار ڈالے گا مجھے!”
”بیٹی! کچھ نہیں ہوتا، اب وہی تمہارا گھر ہے، تمہیں والد کی نصیحت یاد نہیں کیا؟ جس گھر میں تمہاری ڈولی گئی ہے وہاں سے اب جنازہ ہی نکلے گا تمہارا۔”
”چچا! خدا کا واسطہ مجھے اس شخص کے ساتھ مزید نہیں رہنا۔ میں ساری عمر آپ لوگوں کی خدمت کروں گی، آپ کے پیروں میں پڑی رہوں گی، مجھے آپ سے دو وقت کی سوکھی روٹی کے علاوہ کچھ نہیں چاہئے۔”
”بیٹا! اب میں کچھ نہیں کرسکتا، جرگہ فیصلہ سنا چکا ہے، تمہیں سسرال جانا ہی ہو گا، اپنا سامان تیار کرو، وہ لوگ تمہیں لینے آتے ہوں گے۔”
یہ یا اس سے ملتی جلتی بحث ہی ہوئی ہو گی، منیبہ اور اس کے چچا کے مابین، جنہوں نے اسے واپس سسرال جانے کے لئے مجبور کیا تھا۔
اس وقت منیبہ کی ماں کے دل نے ضرور بیٹی کی طرف داری کی ہو گی لیکن دلی خواہش کے برعکس بیٹی کو چچا کی بات ماننے پر مجبور کیا ہو گا۔
منیبہ نے بھی مزید کچھ نہیں کہا۔ سسرال والے آ گئے اور ان کے ساتھ روانہ ہو گئی، آج ان کی آنکھیں جذبات سے مکمل عاری تھیں، انہیں شاید چھٹی حس نے آنے والے کل کے حالات بتا دیئے تھے لیکن وہ مکمل بے بس تھی۔ وہ اس بدبودار معاشرے کے سامنے بے بس تھی یا وہ شاید اس گھٹن زدہ ماحول سے خود جان چھڑانا چاہ رہی تھی یا شائد انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ شخص انہیں اتنی اذیت ناک موت دے گا جس نے کبھی ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف کہا ہو، جس نے اور نہ سہی شادی سے پہلے یا شادی کے دن ہی کبھی محبت کا احساس دلایا ہو۔
اگلے دن ٹی وی چینلز پر ٹکرز چل گئے “شوہر نے بہن کے ساتھ مل کر چھ مہینے کی دلہن کو جلا کر مار ڈالا۔”
آج وہ شخص پتہ نہیں کس سوچ کے ساتھ اس انسان کے جسم پر آگ لگانے کے لئے تیل چھڑک رہا ہے جس نے کبھی اس جسم کو یک جاں دو قالب کہا تھا۔
کوئی جانور بھی انسان کے ساتھ چند ساعت گزار دے تو اس کو تکلیف میں نہں دیکھ سکتا۔ لیکن یہاں شائد آج انسانیت کی تذلیل کا دن ہے، یہاں وہ کچھ ہونے جا رہا ہے جس سے انسانیت تو کیا حیوانیت بھی شرم کے مارے منہ چھپائے۔
ابھی ان کی شادی کو عرصہ ہی کتنا ہوا تھا۔ صرف چھ مہینے۔ ابھی تو ان کی ہاتھوں کی مہندی بھی پھیکی نہیں پڑی تھی۔
ویسے تو چھ مہینے کا عرصہ بہت مختصر ہے لیکن انسان کو ایک مخصوص شخص، حالات اور گھرانے کے حوالے اس فیصلے تک پہنچنے کے لئے یہ بہت بڑا عرصہ ہے کہ مزید ان کے ساتھ وقت گزارا جا سکتا ہے یا نہیں۔
ضروری نہیں کہ ہر شادی کامیاب ہی رہے۔ چھ مہینوں بعد اگر بیٹی کہتی ہے کہ میں اس آدمی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، وہ انسان نہیں جانور ہے، ہر وقت مارتا پیٹتا ہے تو والدین کو اپنے فیصلے پر پشیماں ہونا چاہئے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بیٹی کو بیاہنے کے ساتھ ہی ان کے ذہن میں یہ خیال بٹھایا جاتا ہے کہ اب وہاں سے تمہارا جنازہ ہی نکلنا چاہئے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ بہن، بیٹی کو بیاہنے کے ساتھ یہ بتایا جائے کہ ہم نے پوری تسلی کے بعد اچھے گھرانے میں آپ کا رشتہ کروایا ہے اور امید ہے کوئی بڑا مسئلہ پیش نہیں آئے گا، چھوٹے موٹے جھگڑے گھرانوں کی خوبصورتی ہوتے ہیں جسے بڑھانا چڑھانا نہیں چاہئے۔ لیکن خدانخواستہ پھر بھی شوہر سمیت وہاں کوئی بھی کھوتے کا بچہ ثابت ہو، کوئی آپ پر ہاتھ اٹھائے تو فوراً گھر آ جانا، اپنے گھر کے دروازے آپ کے لئے ہمیشہ کھلے ہیں۔ ہم نے تمہیں انسانوں میں بیاہا ہے، نہ تم جانور ہو اور نہ ہم نے ان کے ساتھ تمہارا سودا کیا ہے۔
منیبہ کے ساتھ یہی ہوا، شوہر اور سسرال کے دیگر لوگوں نے انہیں مارا پیٹا، پہلے انہوں نے برداشت کیا لیکن جب برداشت بھی جواب دے گئی تو میکے چلی آئی۔ تاہم ان کی بدقسمتی تھی کہ ان کے والدین اور چچا بزدل ثابت ہوئے۔ ناز و نعم سے پلی بیٹی کے شوہر سے اتنا نہ پوچھ سکے کہ انہوں نے اس کا بگاڑا کیا ہے، یا اتنا ہی پوچھ لیتے کہ عورت پر ہاتھ اٹھاتے ان کی کون سی غیرت کو سکون پہنچتا ہے؟ یا کم از کم اتنا تو وہ کر سکتے تھے کہ انہیں دوبارہ اس جہنم میں نہ جانے دیتے لیکن یہاں تو انہوں نے اسے خود اس دوزخ کی آگ میں دوبارہ دھکیل دیا۔
اس پر جب تیل چھڑکا جا رہا تھا تو وہ کتنا چیخی ہو گی اور یقیناً ماں باپ کو پکارا ہو گا، یا شائد اس چچا کو بھی جس نے اسے واپس یہاں بھیجا تھا۔ کتنی منتیں کی ہوں گی اپنے شوہر کی، کتنے واسطے دیئے ہوں گے، کتنی بھاگی ہو گی، کتنی دوڑی ہو گی اور جب ناامید ہوئی ہو گی تو پھر ایک کھونے میں بیٹھ گئی ہو گی اور شائد وہی لمحہ ہو گا جب ماچس کی تیلی اس کی جانب لپکی ہو گی۔
وہ انسان پتہ نہیں تیلی کیسے جلا رہا ہے؟ پچھلے وعدے دعوے، تعلق، رشتہ ناطہ تو چھوڑ وہ انسان کو جلا کیسے رہا تھا، وہ اپنے غرور میں اتنا بدمست کیسے ہو گیا تھا کہ اللہ کی دی ہوئی زندگی کو چھینے، اور وہ بھی اس انداز میں کہ انسانیت شرما جائے۔