کام ہم خود غلط کریں، گالیاں حکومت کو دیں، آخر کیوں؟
سدرہ ایان
کل رات میں نے ایک پوسٹ پڑھا کہ ہسپتال میں بیڈ نہ ملنے کی وجہ سے خاتون نے گائنی وارڈ سے باہر بچے کو جنم دے دیا اور بچے کی ولادت ایل آر ایچ کے گائنی فیسیلٹی تک پہنچنے سے پہلے ہوئی۔ عادت کے مطابق پوسٹ دیکھنے کے بعد میں نے کمنٹس پڑھنے شروع کیے، وہاں میں نے کیا دیکھا کہ ہر بندے نے یا تو لعنت بھیجی ہے یا پھر حکومت پر تنقید کی ہے۔
کمنٹس پڑھنے کے بعد میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کمنٹس دینے کیلئے صرف گالیاں ہی رہ گئی ہیں؟ کیا ہماری سوچ صرف اپنی ہی حکومت پر تنقید کرنے کی حد تک رہ گئی ہے؟ کیا ہم صرف دوسروں پر لعنتیں بھیجنے تک ہی محدود رہ گئے ہیں؟
ہر کام کے لیے ہم حکومت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے، کچھ انسان اپنا بھی فرض پورا کرے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔
میں اس بات پر حیران ہوں کہ اپنی زندگی میں آج تک کوئی ایسی حکومت نہیں دیکھی کہ جس پر تنقید نہ ہوئی ہو، میں اس بات کو لے کر کافی سوچ میں پڑ گئی ہوں کہ عوام کو آخر چاہیے کیا? ایک ایسا ملک جہاں پانی، بجلی، گیس سب میسر ہو، جہاں بیماریاں نہ ہو، آلودگی نہ ہو اور پاک صاف سر سبز ماحول ہو؟
ہم کیوں یہ نہیں سوچتے کہ پانی حکومت نہیں ہم ضائع کر رہے ہیں، گھنٹوں پانی بہتا ہے نلکا کھلا رہتا ہے کوئی دھیاں ہی نہیں دیتا۔
بجلی حکومت نہیں ہم خود ضائع کرتے ہیں۔ رات کو تو کیا دن کو بھی سارے بلب جلے ہوئے ہوتے ہیں۔ موسم گرمی کا ہے تو پھنکا ضرور چلے گا چاہے کوئی بیٹھا ہوا ہو یا نہیں۔ گیس حکومت نہیں ہم ضائع کرتے ہیں۔ بیماریاں حکومت نہیں صفائی کا خیال نہ رکھتے ہوئے ہم پھیلا رہے ہیں۔ جگہ جگہ زمین پر، دریاؤں میں نالوں میں حکومت نہیں ہم کوڑا پھینک رہے ہیں۔
آخر ہم سب کو اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی کہ حکومت ہمیں وسائل فراہم کر رہی ہے لیکن ہم خود اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں لیکن پہلے ہم نے سوچ بنانی ہے اپنی، ہم دن میں ہزار مرتبہ مہنگائی کو لے کر روتے رہتے ہیں، ہم نہیں جانتے کیا کہ اگر چیزیں سستی ملنا شروع ہو جائیں تو ہم کون سا قدر کریں گے پھر تو خوب مزے سے ضائع کریں گے۔ اب بھی اگر ہم دیکھیں تو ڈھیر سارا کھانا ہمیں مختلف جگہوں میں ڈسٹ بنز میں پڑا ہوا ملے گا، اس سب کے لیے حکومت نہیں ہم خود ذمہ دار ہیں۔
حکومت کا کام ہے وسائل فراہم کرنا جبکہ ہمارا کام ان وسائل کو صحیح طرح سے استعمال کرنا ہے نہ کہ ان کو ضائع کرنا اور حکومت سے مزید طلب کرنا، کہیں کوئی چیز عوام یا حقدار لوگوں کے لیے آئے تو ہم ایک کے بجائے کئی لے لیتے ہیں، دوسروں کا حق ہم لے لیتے ہیں جس کی وجہ سے حقدار ان سے محروم رہ جاتے ہیں اور مزید گالیوں و تنقید کی شکل میں مطالبے شروع ہو جاتے ہیں۔
تو کسی اور پر تنقید کرنے یا گالی گلوچ سے پہلے ہمیں خود کو جانچ لینا چاہیے، سب سے پہلے یہ کہ جو ہم کر رہے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟
ہمیں جو وسائل ملے ہیں کیا ان کا صحیح استعمال جانتے ہیں ہم؟ ہم حکومت سے مطالبے تو کر رہے ہیں لیکن کیا ہم ایک رسپانسبل شہری ہونے کا حق ادا کرتے ہیں؟
ہر چیز کے لیے حکومت رسپانسبل نہیں، حکومت ہمارے گھر آ کر ایکسٹرا لائٹس بند نہیں کر سکتی نہ ہی ہمارے گھروں کے نلکے بند کر سکتی ہے نہ ہمارا چولہا بند کر سکتی ہے اور نہ ہی ہمارے اپنے ہی ہاتھوں سے پھیلائی گئی گندگی کو صفائی میں بدل سکتی ہے۔
ہر شہری کو چاہیے کہ وہ اپنا حصے کا کام خود کرے، ہر کوئی اگر اپنا فرض بخوبی نبھائے تو نہ ملک میں وسائل کی کمی ہو گی اور نہ ہمیں تنقید اور گالی گلوچ جیسا گھٹیا رویہ اختیار کرنا پڑے گا، و ما علینا الا البلاغ!