افغانستان و شمالی وزیرستان میں ماری جانے والی خواتین کے نام
خالدہ نیاز
ویسے تو ہم اکثر خواتین کے مسائل پر بات کرتے رہتے ہیں اور جو خواتین معاشرے کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں ان کو اپنی خبروں میں جگہ بھی دیتے ہیں لیکن پچھلے دو سال سے جب بھی مارچ کا مہینہ آتا ہے تو اس دوران ہماری ایڈیٹوریل میٹنگز میں اس بات پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے کہ کون سی ایسی خواتین ہیں جو باقیوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں اور کیسے ہم ان کو لوگوں کے سامنے لا سکتے ہیں۔
مارچ کے مہینے میں خصوصی طور پر ان خواتین کو یاد کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی شعبے میں خدمات سرانجام دے رہی ہوتی ہیں چاہے وہ ادب ہو، سیاست ہو، صحافت ہو، صحت ہو یا زندگی کا کوئی اور شعبہ۔
میں خود بھی ایسی ہی چند سٹوریز پرکام کر رہی ہوں لیکن اس بار میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نا میں ان خواتین کو یاد کر لوں جو چند دن قبل افغانستان میں قتل کر دی گئیں۔ افغانستان میں میڈیا ادارے میں کام کرنے والی ان خواتین کو اس وقت ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا جب وہ اپنے کام کے بعد دفتر سے گھر واپس جا رہی تھیں۔
سوچتی ہوں ان کے گھر والوں پر کیا گزری ہو گی جب ان کی لاشیں گھروں کو پہنچی ہوں گی کیونکہ گھر سے نکلتے وقت تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھیں۔
چاہے پاکستان ہو یا افغاستان ان ممالک میں خواتین کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ گھر سے باہر نکلےں اور پھر میڈیا جیسے شعبے میں کام کریں لیکن ایسی باہمت خواتین موجود ہیں جو اس سخت شعبے کا انتخاب کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ دوسری خواتین کی آواز بنیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ پہلے تو وہ مشکل سے اجازت لے لیتی ہیں اس کے بعد معاشرے کی تنگ نظر اور سوچ کو برداشت کرتی ہیں اور ایک دن آتا ہے کہ بے دردی سے قتل بھی کر دی جاتی ہیں۔
بحیثیت صحافی ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ ایک ایسا خطہ جہاں پر مردوں کے لیے صحافت کسی چیلنج سے کم نہیں ہے وہاں پرخواتین جب صحافت میں آتی ہیں تو ان کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ مسائل گھر سے شروع ہوتے ہیں، گھر والے کہتے ہیں اتنا خوار ہوتی ہو، معاوضہ اتنا نہیں ملتا، چھوڑو اس صحافت کو اور اس کے بعد لوگوں کی چھبتی نظریں اور خاندان والوں کا طنز الگ۔
کچھ لوگ تو صحافت اور شوبز میں فرق تک نہیں کر سکتے تب ہی تو ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لڑکیاں صحافت کی ڈگری تو لے لیتی ہیں لیکن عملی صحافت میں قدم نہیں رکھتیں کیونکہ ان کو گھر کی طرف سے اجازت نہیں ملتی اور جب ان کو قتل کرنے کے واقعات سامنے آئیں گے تو ایسے میں یہ خلا مزید بڑھتا جائے گا۔
ہمارے ملک کی خواتین بھی بہت باہمت ہیں چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہو، اپنا نام کما رہی ہیں، ہمارے ملک میں خواتین کی کافی تعداد اپنی پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی ہے چاہے وہ گھروں میں کام کام کرنے والی خواتین ہوں، استانیاں ہوں یا کسی اور فیلڈ میں، وہ کوئی بھی کام سیکھ سکتی ہیں اور پھر سیکھ کوشش کرتی ہیں کہ معاشرے کی دوسری خواتین کو سکھا سکیں تاکہ وہ بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا سکیں۔
ایسی باہمت خواتین میں ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والی چار بہادر خواتین بھی تھیں جو بھلائے نہیں بھولیں گی کیونکہ وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کی خواتین کو معاشی خودمختار بنانے کے لیے سلائی کڑھائی کے سنٹر جایا کرتی تھیں اور ان کو مختلف ہنر سکھا رہی تھیں لیکن افسوس کہ ان کو بھی نہیں بخشا گیا اور چند روز قبل ان کو بھی ابدی نیند سلا دیا گیا اور کسی کو فرق نہیں پڑا، اگر فرق پڑا تو ان کے گھر والوں کو کیونکہ ان کے گھر اجڑ گئے۔
ان خواتین کے وارثوں کا کہنا ہے کہ وہ محنت کر کے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہی تھیں، انہوں نے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھے تھے کہ کچھ پیسے کما کر پڑھ لکھ جائیں گی تو ان کا مستقبل سنور جائے گا لیکن کسی کو کیا ان کی مشکلات سے، جنہوں نے مارنا تھا انہوں نے مار دیا بہت آسانی سے۔
افسوس کے ساتھ کہوں گی کہ ایسی خواتین کو پھر انصاف بھی نہیں ملتا یاد رکھنا تو بہت دور کی بات، لیکن اب ان آوازوں کو مزید دبایا نہیں جا سکتا کیونکہ اگر ایک کو مارو گے تو دوسری نکلے گی اور لوگوں کی سوچ میں فرق ضرور لائیں گی۔
خواتین کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، اگر ہماری خواتین باشعور، پڑھی لکھی اور معاشی طور پرخودمختار ہوں گی تو اس سے ایک بہترین معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔
لیکن یہ صرف میڈیائی اداروں اور این جی اوز کا کام نہیں ہے کہ وہ ایسی باہمت خواتین کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کو معاشرے کے سامنے لائیں بلکہ حکومت، باقی اداروں اور معاشرے کے ہر فرد کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی خواتین کی حوصلہ افزائی کریں۔
افغانستان اور بنوں سے تعلق رکھنے والی ان جیسی خواتین کے لیے صرف مارچ کا مہینہ بھی مختص نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر مہینے کے ہر دن ان کی بات ہونی چاہئے، ان کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہونی چاہئے اور ان قوانین پر عملدرآمد ہونا چاہئے، جو خواتین گھروں پہ ہوتی ہیں اور پورے گھر کو سنبھالتی ہیں ان کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے اور ان کو بھی وہ حقوق دینے چاہئیں جن کی وہ حقدار ہیں۔