بلاگز

سیل کے نام پر لوگوں کو لوٹا جاتا ہے

 

رانی عندلیب

دنیا کے مختلف ممالک میں مذہبی تہواروں کے آنے سے پہلے اکثر مختلف چیزوں پر سیل لگ جاتی ہیں جو کہ لوگوں کی ضروریات زندگی کے لیے امید کی کرن بن جاتی ہے، یہ سیل متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے کسی پرائز بانڈ سے کم نہیں ہوتا. مڈل کلاس کے لوگ اس آفر سے فائدہ اٹھائے بنا نہیں رہ پاتے کیونکہ انھیں اپنی ضرورت کی ہر چیز آسانی سے اور سستی مل جاتی ہے ان ممالک کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی رمضان کی آمد کےساتھ ہی سیل کے نام پر بڑے اور چھوٹے برانڈ پر سیل لگائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا سب جھوٹ ہوتاہےآئیں اپنے کچھ دوستوں کے تجربے آپ کے ساتھ شئیر کرتی ہوں۔

ستارہ جن کا تعلق پشاور سے ہے کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ باٹا شوز شاپ پر گئی جو کہ ایک بڑا برانڈ ہے، وہاں پر باہر بھی لکھا ہوا تھا  buy one get one free یعنی ایک کے ساتھ ایک فری. ہم نے شوز چیک کیے اور پسند کیے ساری شاپنگ کے بعد جب کاونٹر پر پیسے دینے کی باری آئی تو کاونٹر والے نے ہم سے زیادپیسے لیے میں نے کہا کہ آپ نے زیادہ کیوں لیے تو ہمیں بتایا گیا کہ باٹا شوز کی قیمت زیادہ ہے. ستارہ نےمزید کہاکہ جب دکاندار سے ہم نے کہا کہ آپ نے زیادہ قیمت لی ہے تو اس کا یہ کہنا تھا اس شوز کی قیمت پہلے 1200 تھی لیکن اپ لوگوں نے اس کو ہاتھ لگایا تو اب اس کی قیمت بڑھ گئی ہیں اور ہاتھ لگانے سے تبدیل ہو گئی ہے. ستارہ کا مزید کہنا تھاکہ میں نے بہت بحث کی دکان دار کے ساتھ لیکن باٹا والے نہیں ماننے تو میں نے مجبور ہو کر شوز نہیں خریدے بلکہ غصہ سےدکان سے باہر آگئی اور خریداری کیے بنا ہی گھر واپس آگئی۔

نورین جس کا تعلق واہ کینٹ سے ہے کا کہنا ہے کہ جب میں واہ کینٹ کے بازار میں شاپنگ کے لیے گئی تو وہاں پر service shoesپر %70آف سیل لگی تھی جب ہم نے شوز خریدے جو کہ350 کے تھے کاونٹر پر رقم دینے لگے تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ شوز 1200 کے ہیں. نورین کا کہنا تھا کہ میں نے حیران ہو کر دکان دار کی طرف دیکھا کہ شوز پہ لیبل 350 کی لگی ہے. اپ ہمیں کیسے اب کہہ رہے ہےتو دکاندار نہیں انکار کیا کہ یہ تو سیل والی نہیں ہیں، نورین نے کہا کہ شوز کی پیکنگ کھول کر میں نے دیکھی تو حیران ہو گئی کہ شوز پیک کرنے کے دوران ہی لیبل چینج کیا گیا تھا جو کہ غصے میں آکر میں نے بہت کچھ کہہ دیا اور سروس شوز سے بائیکاٹ کرلیا کہ آئیندہ کبھی بھی service سے شاپنگ نہیں کرونگی۔

شہناز جس کا تعلق پشاور سے ہے کا کہنا ہے کہ جیسے ہی بازار میں داخل ہوئی تو اکثر چیزوں پر ڈسکاونٹ لگا ہوا تھا بازار گئی وہاں شوز پر 500کی سیل لگی تھی جب ہم نے شوز خریدے اور پیک کیے تو دکان دار نے کہا کہ 1999 اس کی قیمت ہم نے کہاکہ یہ تو ہم نے ڈسکاونٹ والے خریدے تھے تو ہم سے کہا گیا کہ یہ تو ڈسکاونٹ والے نہیں ہیں جو نیچے رکھے گئے ہیں وہ ڈسکاونٹ والے ہیں شہناز کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے کہا کہ یہاں تو ڈسکاونٹ لکھا گیا تھا تو دکاندار نے کہا کہ سب کی قیمتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں.

سلمہ جس کا تعلق گلدرہ سے ہے کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ مینا بازار گئی وہاں پر یونیک بوتیک ہے تو وہاں پر بھی ڈسکاونٹ آفر لگی تھی. ہم نے بوتیک سے شرٹ ڈسکاونٹ میں1000روپے میں لی تھی جب کاونٹر پر بل ادا کرنے لگے تو وہی شرٹ بل میں 1800کی تھ .جب ہم نے کہا کہ ہم نے شرٹ ڈسکاونٹ میں لی ہے تودکاندارنے کہا ہم نے ایسی شرٹ ڈسکاونٹ میں نہیں رکھی.

فیصل جن کا تعلق پشاور کے حیات آباد سے ہے کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ بچوں کے ساتھ شاپنگ کے لیے سٹائلو شاپ گیا تو وہاں پر باہر لکھا ہوا تھا سیل سیل سیل تو میں نے بھی وہاں پر ہر طرح سے شاپنگ کی کیونکہ ہر چیز پے% 20سے لے کر%50 ڈسکاونٹ تھی جوتوں سے لیکر کپڑوں تک ہر قسم کی اشیاء اس میں موجود تھی ہر ایک پے%20%30%40ڈسکاونٹ تھی. فیصل کا مزید کہنا تھا کہ جب کاونٹر پر آیا اور بل ادا کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ اس میں دو چیزوں پر ڈسکاونٹ ہیں باقی کسی بھی چیز پر نہیں ہیں بلکہ سب چیزوں کی اپنی قیمت ہیں۔ چونکہ فیصل نے اپنی ساری شاپنگ کی تھی اور سامان لیا تھا تو اسے واپس کرنا عجیب سا لگ رہا تھا اور مجبوری میں ساری چیزیں خرید لی۔ فیصل کا مزید کہنا تھاکہ بعد میں بہت افسوس ہواکہ سیل کا لیبل لگا کر وہی چیزیں اپنی قیمت میں بھیج کر لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں.

آخر میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ پاکستان میں ایسے ڈسکاونٹ پر پابندی ہونی چاہیےجو ڈسکاونٹ کے نام پے لوگوں کو دھوکا دے رہے ہیں.

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button