ضم شدہ قبائلی علاقوں میں تعلیمی پسماندگی کی وجوہات اور اثرات
حضرت اللہ
قبائلی علاقوں کی پسماندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جو وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول رہے۔ قبائلی علاقے وہ بدقسمت علاقے ہیں جو 28 مئی 2019 سے پہلے اور تو چھوڑ پاکستان کے آئین تک سے محروم تھے، یہاں آئین پاکستان کے بجائے FCR یعنی Frontier crimes regulations نامی قانون رائج تھا جو انگریز دور کا قانون تھا۔
اس قانون کے تحت قبائلی عوام کو وکیل، اپیل اور دلیل کا حق حاصل نہ تھا اور نہ ہی کسی عدالت کا اثر رسوخ یہاں پہ تھا۔ یہاں کا پولیٹیکل ایجنٹ ملحقہ صوبے کے گورنر کا نمائندہ ہوتا تھا جس کے پاس ایجنسی کے تمام انتظامی اختیارات ہوتے تھے۔ یہاں کے مسائل جرگہ سسٹم کے ذریعے حل ہوتے تھے۔ جرگے کے ممبران ملکان ہوتے تھے جو پولیٹیکل ایجنٹ کے منتخب کردہ مشران ہوا کرتے تھے۔ یہ مشران بغیر کسی اہلیت اور qualification کے پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے چنے جاتے تھے جن میں اکثر غیرتعلیم یافتہ لوگ شامل ہوتے تھے جو دستخط کرنے کی بجائے انگوٹھا لگاتے تھے۔
یہاں کے تعلیمی پس منظر کو دیکھیں تو یہ علاقہ جات پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق یہاں کی شرح خواندگی %33 ہے جبکہ قومی سطح پر یہ شرح %58 ہے۔ یہاں خواتین کی شرح خواندگی %7.8 ہے جبکہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق یہاں کی آبادی 50 لاکھ ہے۔ یہاں کی تعلیمی پسماندگی کی وجوہات میں سے چند درج ذیل ہیں۔
تعلیمی پسماندگی کی چندوجوہات:
31 مئی 2018 سے پہلے قبائلی علاقہ جات وفاق سے کنٹرول ہوتے تھے۔ یہاں کے نمائندے اسمبلی میں موجود تو ہوتے تھے لیکن 1973 کے آئین کی شق 247 کے مطابق اپنے علاقے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کر سکتے تھے بلکہ ایک ایسی بھی تاریخ گزری ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اپنا ووٹ خود استعمال کرنے کا اختیار حاصل نہ تھا۔
مقامی ملکان کا کردار:
چونکہ عوام کو ووٹ استعمال کا حق حاصل نہ تھا تو جس کو ملک ووٹ ڈالتا تھا عوام کا ووٹ بھی بلاواسطہ اس نمائندہ کا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے جہاں ملکان کی تعداد زیادہ ہے وہاں 1 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے میں سکول بنائے گئے ہیں جبکہ اس کے برعکس خیبر پختون خواہ میں 3 سے 4 کلومیٹر میں ایک سکول ہے۔ جہاں ملکان کی تعداد کم ہے وہاں میلوں کے فاصلے پر سکول نظر نہیں آتے جو کہ وہاں کے بچوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ اسی طرح ملکان کے ذاتی مفادات اور دلچسپی نے بھی باقی کسر پوری کر دی ہے۔ چونکہ وہ خود لکھے پڑھے نہیں ہوتے تھے اس لئے ترقی سے بے خبر رہے۔ انہوں نے کبھی اپنے علاقے کے بچوں کے مستقبل کیلئے اعلی تعلیمی اداروں کا مطالبہ کیا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی کوشش کی۔ اس کی وجہ سے یہاں پرائمری سکول تو ملکان کے علاقوں میں نظر آتے ہیں لیکن جہاں ملکان نہیں وہاں پرائمری سکول آبادی کے تناسب سے موجود نہیں ہیں جبکہ مڈل اور ہائی سکول یا کالج ملنا تو نا ممکن ہے۔ ملکان کو بس اس پہ بڑا فخر ہوتا تھا کہ ان کو بڑوں میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کو بھی علاقے کے فیصلوں میں اپنی رائے دینے کا اختیار حاصل ہے۔ لوگ اسے ملک کے نام سے پکارتے ہیں اور ان سے کاغذات کی جانچ پڑتال کیلئے دستخط کیلئے آتے ہیں۔
منتخب نمائندوں کا کردار:
نمائندوں کی چناو میں ملکان صاحبان کا بڑا کردار ہوتا تھا کیونکہ وہ عوام کو قائل کر کے اپنی پسند کے نمائندہ کو ووٹ ڈلواتا تھا. اس لئے منتخب نمائندوں اور امیدواروں کو عوام سے زیادہ ملکان صاحبان کی فکر ہوتی تھی۔ جب وہ اسمبلی کا ممبر بنتا تو عوام کی بجائے ملک صاحب کو خوش کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ضرورت کے برعکس ہر ملک کو ایک ایک سکول ضرور ملا ہے تاکہ انہیں اس شکل میں مراعات اور تنخواہ ملتی رہے اور اسمبلی کے ممبر صاحب کے ساتھ ہونے والے احسان کا بدلہ دیا جا سکے۔
بیوروکریسی کا کردار:
ملکان اور منتخب نمائندگان کے علاوہ بیوروکریسی کا بھی اس میں پورا پورا کردار رہا ہے۔ یہاں کے بیروکریٹس چونکہ ملکان سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانا اور علاقے میں اپنی رٹ قائم رکھوانا چاہتے تھے، اس لئے وہ بھی ملکان کو خوش رکھنے کی لئے جو وہ مانگتے تھے، دیتے تھے جبکہ ملکان کو کبھی تعلیم سے دلچسپی نہیں تھی۔
والدین کی غربت اور عدم دلچسپی:
اس طرح ایک اور وجہ والدین کا غیر تعلیم یافتہ ہونا ہے۔ والدین چونکہ مریض، شادی، رسم و رواج،اسلحہ (جو کہ یہاں رکھنا ضروری سمجھا جاتا تھا) اور اس طرح اور غیر ضروری کام کی لئے قرض پہ پیسے لیتے تھے مگر بچے کی تعلیم پر خرچ کرنے کے لئے آمادہ نہ تھے۔ فی میل ایجوکیشن خاص کر بالغ لڑکیوں کی تعلیم عزت کے خلاف بات سمجھی جاتی تھی۔
مذہبی طبقے کا کردار:
درج بالا سب کے ساتھ ساتھ مذہبی طبقے کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ یہاں کے بعض مذہبی رہنما جدید تعلیم کے خلاف ہوا کرتے تھے اور اسے دنیاوی تعلیم کہہ کر آخرت میں بے سود قرار دیتے تھے جس کی وجہ سے اکثر والدین اور طالب علم جدید تعلیم کے بجائے دینی تعلیم کی طرف زیادہ راغب ہوتے تھے۔ انگریزی کو یورپ کی زبان کی وجہ سے اس کا سیکھنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اب اس میں کافی بہتری آئی ہے جہاں بڑے شہروں میں قائم بڑے مدرسوں کے علماء اب دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کے بھی قائل ہیں۔ بعض مدرسوں میں ایک خاص کوالیفیکیشن کو مدرسہ میں داخلے کیلئے شرط رکھی گئی ہے مثلاً کراچی کا جامعتہ الرشید میں چار سالہ عالم دین کورس گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کی شرط رکھی گئی ہے جس میں امیدوار کی عمر 30 سال تک ہونی چاہئے جبکہ تعلیمی قابلیت میں %60 مارکس یا 2.5 GPA کا ہونا بھی لازمی ہے۔ اس طرح ایک اور مذہبی مدرسہ ،جامعہ بیت السلام،جو کہ سندھ سکھر میں واقع ہے، اپنی نوعیت آپ کا ایک سکول ہے جہاں کے طلباء کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہاں کے طلباء کئی سائنسی اور ٹکنالوجی کے مقابلوں میں حصہ بھی لے چکے ہیں۔
دہشتگردی کا کردار:
اس طرح 2000 کی دہائی میں شروع ہونے والی دہشتگردی نے رہی سہی ترقی بھی چھین لی۔ 17 دسمبر 2018 کو DAWN اخبار میں نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کے فاٹا (اب ضم شدہ اضلاع) میں 1500 سے زائد سکول اڑا دئیے گئیے ہیں۔ جو طلباء اس سال enrolled ہوئے تھے وہ IDPs بن گئے جہاں مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ پڑھائی نہ کر سکے۔ یہاں پر موجود سرکاری عمارتیں جس میں سکول بھی شامل تھے، ایک مدت تک دہشتگردی کے مقابلے کے لئے قبائل میں تعینات سیکورٹی فورسز کے زیر استعمال رہے۔
غربت اور بے روز گاری:
بے روز گاری خاص کر تعلیم یافتہ نوجوانوں کا بے روز گار ہونا ایک اہم وجہ ہے کیونکہ ان کو دیکھ کر لوگ اپنے بچوں کو سکول میں داخل نہیں کراتے کہ ان کے پڑوس میں کوئی ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص کو نوکری نہیں ملتی اس لئے کہ غریب لوگو کی نظر تعلیم کے بعد نوکری پر ہوتی ہے۔ یہی بے روز گار اعلی تعلیم یافتہ پورے گاوں کے نشانے پر ہوتا ہے.غربت اور بے روز گاری بھی ایک بڑی وجہ تھی۔ یہاں کے لوگ اپنے بچوں کو سکول کے بجائے کسی دکاندار کے ساتھ شاگرد بناتے یا اپنے والد کے کام میں اس کا ساتھ دیتے تھے تاکہ کچھ کما سکے۔ بچے سکول تو نہ جاتے تھے البتہ کمانے کے لئے نکلتے تھے۔
محکمہ تعلیم کا کردار:
یہاں کے محکمہ تعلیم کا کردار بھی غیر تسلی بخش رہا اور اس کے افسران بھی اعلی عہدیداروں کی مرضی سے چلتے رہے۔ پرانا نصاب:
پرانا اور outdated نصاب تعلیم صرف قبائل کا نہیں پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ایک طالب علم وہ کچھ سیکھتا ہے جو اسے پڑھایا جاتا ہے. جب اس کی پڑھائی جدید دور کی ضروریات کے اور مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق نہ ہو تو پھر ایسی پڑھائی کی بنیاد پر کوئی نوکری نہیں ملتی. جو کہ ایک دفعہ پھر لوگوں کی توجہ تعلیم سے ہٹ جاتی ہے۔
اساتذہ اور نصاب کی ہم آہنگی:
موجودہ حکومت کی قومی تعلیمی پالیسی اور اصلاحات میں اعلان کردہ شرط کے مطابق تمام سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم پڑھایا جائےگا جس کے مطابق تمام کورسز انگلش میں ہوں گے جبکہ سر کاری اساتذہ تو اردو میں کورس پڑھانے کی عادی تھے جن کے لئے یہ ایک چیلنج سے کم نہیں۔
بےکار طریقہ کار کے تحت اساتذہ کی بھرتی:
پرانے طریقہ کار کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بھی فیلڈ میں گریجویشن ڈگری کے ساتھ ساتھ پروفیشنل ٹیچنگ کے ڈپلوما کا حامل ہو، تو وہ پڑھانے کا اہل ہے جبکہ دوسری طرف اگر کوئی بندہ حتی کہ انجنیئر یا ڈاکٹر ہوتا لیکن پروفیشنل ٹیچنگ کی نہیں رکھتا تو وہ سکول میں پڑھانے کا اہل نہیں ہوتا تھا جبکہ اس دفعہ اس کے بر عکس سال 2019 کے شروع میں مشتہر ہونے والی پوسٹوں پر پروفیشنل ٹیچنگ ڈپلوما کی شرط ختم کر دی گئی جس کی جگہ منتخب ہونے کے بعد ضروری ٹیچنگ ٹریننگ دی جائے گی۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ماضی کے بر عکس اس دفعہ زیادہ قابلیت کے حامل امیدوار منتخب ہوں گے جو یقیناً تعلیم کے لئے نیک شگون ثابت ہوں گا۔
ناکافی کوٹہ سسٹم:
سرکاری تعلیمی اداروں میں قبائل کے لئے 2 سے 4 فیصد کا کوٹہ رکھا گیا تھا جو سات ایجنسیوں پر مشتمل 50 لاکھ کی آبادی والے علاقے کے لئے کافی نہ تھا۔ اس کی وجہ سے پڑھنے والے چند طلباء سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے تھے جبکہ اس میں بھی اکثریت بندوبستی علاقوں کے طلباء جو قبائل کا ڈومیسائل رکھتے تھے, شامل ہوتے تھے اور باقی طلباء غربت کی وجہ سے تعلیم ادھورا دیتے تھے۔
اساتذہ کی کمی:
17 دسمبر 2018 کو DAWN اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں 5000 اساتذہ کی سیٹیں خالی پڑی ہیں جس پر بھرتی کیلئے جنوری 2019 کو اشتہار ہوئی ہے جس پر کسی حد تک بھرتیوں کا کام مکمل ہو چکا ہے لیکن ابھی بھی کچھ باقی ہے۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہے کہ کتنی بڑی تعداد میں خالی پوسٹیں پڑی تھی اور اس حساب سے کتنے طلباء استاد سے محروم تھے۔
غیر مقامی اساتذہ کی بھرتی:
غیر مقامی اساتذہ کو بھرتی کرنا بھی اس کی ایک وجہ ہے کیونکہ ایسے اساتذہ دور کے علاقے کے ہوتے تھے تو وہ اکثر اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہوتے تھے۔ ان کو آنے جانے میں کافی ٹائم لگتا تھا اور اکثر تو باری باری پر آتے تھے۔
ڈومیسائل کی بنیاد پر اساتذہ کی بھرتیاں:
قبائلی علاقوں کے مشران اور ملکان کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ تھیں اس کی وجہ سے وہ ڈومیسائل کی اہمیت سے بے خبر تھے. اس کی وجہ سے وہ غیر مقامی لوگوں کے لئے اس کی تصدیق کرتے تھے جس کی وجہ سے بندوبستی علاقے کے لوگ قبائل میں نوکریاں حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ قبائل کے لئے مختص کوٹے پر تعلیمی اداروں میں داخلے لیتے تھے۔ بس آپ یوں سمجھلیں کہقبائلی علاقوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علم اور شعور سے دور رکھا گیا۔ یہاں کے نام سے جاری کردہ اربوں روپے بد انتظامی اور بد عنوانی کے نظر ہو چکے ہیں۔ افسران اور اعلی عہدیداروں کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ علاقہ تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ اور میدانوں میں بھی پیچھے رہے۔ یہاں من پسند افراد کو علاقے کا بڑےبنائیے جاتے تھے اور پھر ان کی رائے لے کر اس کو جواز بنا کر یہاں کے لوگوں کے لئے قوانین بنائیے جاتے تھے۔ اس بات کی ادراک تب ہوئی جب 2018 میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے سرتاج عزیز کی نگرانی میں ایک سروے کیا جس میں قبائلی علاقوں کے لوگوں سے ان کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ اس نظام میں خوش ہیں یا پاکستان کے بندو بستی علاقوں کی طرح ہونا چاہتے ہیں۔ جب سروے کی رپورٹ آئی تو اکثریت لوگ اس نظام سے ناخوش تھے جبکہ بہت سے ملکان اس نظام کے حامی تھے۔
معیاری نجی تعلیمی اداروں کا فقدان:
قبائلی علاقوں میں کوئی خاطر خواہ معیاری نجی تعلیمی ادارے میسر نہیں کیونکہ اس sector میں کسی نے بھی قبائلی علاقوں میں سرمایہ کاری نہیں کی جس وجہ سے اگر کوئی معیاری نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا تو نہ کر سکتا۔
اثرات:
یہی وجوہات ہیں کہ یہاں کے نوجوان کوئی منافع بخش ہنر، فن اور ذریعہ آمدن نہیں رکھتا۔ اس وجہ سے بہت سے نوجوان ملک کے خلاف سرگرمیوں اور دہشتگردی میں ملوث رہے جن نے نہ صرف ملک کا نقصان کیا بلکہ اپنے ہی علاقے میں پسماندگی کے اسباب بنے۔ 29 دسمبر 2015 کو شائع ہونے والی Express Tribune اخبار کے مطابق یہاں کے %7.5 لوگ بیرون ممالک میں کام کرتے ہیں جبکہ خیبر پختون خواہ میں یہ شرح %1.38 ہے۔ اس وجہ سے والدین بھی بچوں سے دور ہوتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کا اس طرح تربیت نہیں کر سکتے جو چاہئے۔ اس وجہ سے اکثر وہ غلط راستے پر چلتے ہیں.سرکاری عہدوں پر یہاں کے لوکل افراد کی تعداد بہت کم رہی اور بیشتر عہدیدار اور علاقوں سے یہاں کے عہدوں پر فائز ہیں جن کے ساتھ علاقے کی ترقی کی اتنی فکر نہیں جنتی ایک لوکل بندے کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ بنیادی انسانی حقوق سے بے خبر ہیں۔
یہ لوگ ایک صدی سے زیادہ ظلم اور تاریکیوں کے قانون کے زیر اثر رہے لیکن شعور اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے اپنے لئے حقوق نہیں مانگ سکتے۔ یہاں احساس محرومی اپنی عروج پر ہے یہاں کے لوگ خود کو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کے برابر نہیں سمجھتے.یہ علاقہ پسماندہ ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں اس دور جدید میں بھی بہت علاقوں میں پینے کا صاف پانی، تعلیم، صحت،سڑکوں کا نظام، موبائل نیٹ ورک، انٹرنیٹ، بجلی، عوامی ٹرانسپورٹ اور اس جیسی بہت سہولیات سے محروم ہیں۔
دہشتگردی اور انتہا پسندی کی قائم کردہ تصویر، بجلی کی عدم دستیابی اور کمزور انفراسٹرکچر کی وجہ سے یہاں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے بے روز گاری اور غربت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ دہشتگردی اور انتہا پسندوں کیممکنہ آمدو رفت روک تھام کی خاطر پاک افغان بارڈر جگہ جگہ پر بند ہے جس کی سے کراس بارڈر روز گار نہ ہونے کی وجہ سے غربت بڑھی ہے۔
یہاں کا طالب علم جب علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو کافی مشکلات سے گزرتا ہے کیونکہ پرائمری سکولز کسی حد تک تو موجود ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ مڈل اور بالخصوص ہائی سکول کو پہنچ جاتے ہیں تو میلوں کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی پیدل۔ چونکہ مڈل اور ہائی سکول دور واقع ہوتے ہیں اس لئے طلباء پیدل جانے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ یہاں سڑکوں کا انفرا سٹرکچر اتنا مضبوط نہیں کہ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ موجود ہو جبکہ اپنی سواری ہر طالبعلم کی دسترس میں نہیں ہوتی۔
8 نومبر 2016 کو The Express Tribune میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت کے فاٹا میں کل 671,000 کے قریب اسٹوڈنٹ پرائمری سے لے کر بیچلر تک enrolled ہوئے جن میں سے %82 یعنی 551,000 پرائمری سکول میں enrolled ہوئے جبکہ %2.71 یعنی 18,180 مڈل سکول میں enrolled ہوئے جو کہ ایک مایوس کن ہندسہ ہے، اخبار کے مطابق پرائمری سکول میں drop out کی شرح %73 ہے جس میں %69 لڑکے اور %79 لڑکیاں شامل ہیں، مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جب ایک اسٹوڈنٹ میٹرک پاس کرتا ہے اور پڑھنے کیلئے کالج نہیں ہوتا ایسی حالت میں طالبعلم گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے اور وہ علم کی خاطر ہجرت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ کچھ اسٹوڈنٹس مایوس ہو جاتے ہیں اور کالج میں داخل ہی نہیں ہوتے۔
8 نومبر 2016 کو The Express Tribune اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق %2.89 اسٹوڈنٹس یعنی 671,000 میں سے 194,000 کالج میں داخل ہوتے ہیں۔ اس وقت اس کی عمر بمشکل 15 سے 18 سال ہوتی ہے جو کہ گھر والوں اور اپنے عزیز و رشتہ دار سے دوری اور والدین کی نگرانی سے دوری کی عمر نہیں ہوتی، ایسی عمر میں بچے کو مسلسل ذہنی تربیت، غلط محافل سے روکنے اور اپنی زندگی کا مقصد پہچاننے کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، اس عمر میں بچہ چونکہ نیا نیا جوانی میں قدم رکھا ہوتا ہے اس لئے اس کے بہت سارے فیصلے غیر سنجیدہ اور پر مقصد نہیں ہوتے۔ جس عمر اس کو مسلسل والدین کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے اس عمر میں وہ والدین کی نظروں سے پناہ ہوتا ہے۔
یہ طلبہ اکثر دیہی علاقے سے شہری علاقے کو منتقل ہو جاتے ہیں اس لئے ان کو نئے ماحول میں خود کو adjust کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا، ان کے مالی مشکلات بھی بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں مثلاً کالج ٹیوشن فیس، ہاسٹل فیس اور خوراک کا خرچہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ان میں بعض طالبعلم جو ہاسٹل برداشت نہیں کر سکتے، وہ پرائیویٹ کمرہ کرایہ پر لیتے ہیں، ایسے طالبعلم اپنا کھانا بھی اکثر خود تیار کرتے ہیں اور اپنے کپڑے بھی دھونے ہوتے ہیں جس سے ان کا قیمتی مطالعے کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہاں ان کو اپنے علاقے میں کالج اور ہائی سکول کی سہولیات نہیں ہوتیں اور وہ مجبوراً غربت کی عالم میں علم کی حصول کیلئے نکلتے ہیں۔
اعلی تعلیم کیلئے تو گھر بار چھوڑنا ان کا مقدر ہے کیونکہ پورے سابقہ فاٹا میں اب تک ایک یونیورسٹی نہیں بنی تھی سوائے ایک یونیورسٹی کے، جو کوہاٹ میں فاٹا یونیورسٹی کے نام سے بنائی گئی ہے حتی کہ اس یونیورسٹی میں پڑھنے کیلئے بھی ایک طالبعلم کو گھر بار چھوڑنا پڑتا ہے کیونکہ یہ یونیورسٹی تمام سات قبائلی اضلاع سے باہر واقع ہے۔
بعض طلبہ تو ایسے بھی ہیں جو گھر سے کم عمری میں نکل کر خرچے برداشت کرنے کیلئے کام بھی کرتے ہیں کیونکہ ان کے والدین ان کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے وہ اس طرح کی اسٹڈی نہیں کر سکتے جو چاہئے ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں وہ اوروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والا ایم ایس مارکیٹنگ کا طالبعلم وسیم کا کہنا ہے کہ اس کے والدین غریب ہیں جو اس کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے وہ 2nd time میں مونگ پھلی کی ایک بھٹی میں کام کرتا ہے۔ اس طرح بی ایس زوالوجی کا ایک اور طلب علم یاسین کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سال کا طالب علم لیکن وہ جس کرب سے گزر رہا ہے اس کی وجہ اس کو تعلیم جاری رکھنا نا ممکن لگتا ہے جبکہ اس کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے لیکن اخراجات کی عدم برداشت کی وجہ وہ تعلیم چھوڑنے کو تیار ہے۔ اس کے بقول لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ آن لائن کلاسز نہ لے سکا۔
یہ سلسلہ یہاں نہیں رکتا بلکہ اس سے مزید چونکا دینی والی بات تو یہ ہے کہ یہ تو مرد طالبعلموں کا مسئلہ تھا. وہ لڑکیاں جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں قابل رحم تو وہ ہیں کیونکہ ان کی پرائمری سکول تک رسائی بمشکل ہوتی ہے۔ مڈل سکول تک رسائی ان کے لئے ایک خواب ہو سکتا ہے حقیقت نہیں کیونکہ یہاں سکول کے فقدان کے علاوہ ایک اور مسئلہ، قبائلی ثقافت اور رسم و رواج آڑے آتا ہے۔
ضم شدہ قبائلی علاقہ جات میں لڑکیوں کی تعلیم کا شرح %7.8 ہے جو کہ آبادی کے تناسب سے بہت کم ہے۔ پورے قبائلی علاقوں میں 13 Higher secondary schools ہیں جن میں صرف 3 خواتین کے لئے ہیں جو بہت کم ہیں۔ یہاں لڑکیاں ہائی سکول اور کالج کو جاہی نہیں سکتیں کیونکہ بنیادی مسئلہ سکول اور کالج کا نہ ہونا ہے جبکہ والدین اپنی بچیوں کو گھر سے دور تعلیم کیلئے نہیں بھیجنا چاہتے۔
اس کی بڑی وجہ والدین کی بے تعلیمی ہے.اس کی وجہ سے یہاں علاج کیلئے فی میل ڈاکٹر کی بڑی کمی ہے۔ بیشتر علاقوں میں زچہ و بچہ اور خواتین کی دیگر پوشیدہ امراض کا علاج بھی میل ڈاکٹرز سے کیا جاتا ہے۔
تجاویز:
یہاں کے تمام سکولوں میں مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے جس سے وہ نہ صرف اپنے علاقے کی ترقی میں اپنا مؤثر کردار کریں گے بلکہ بے روز گاری، غربت اور احساس کمتری میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد میں بھی کمی آئی گی۔
مقامی مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا جائے اور انہیں آمادہ کیا جائے کہ وہ لوگوں کو جدید تعلیم کی ترغیب دیں، سکول کی ویران عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کی جائے۔
یہ سروے کیا جائے کہ جہاں پر ضرورت سے زیادہ سکول ہیں وہاں سے ان علاقوں میں منتقل کیا جائے جہاں سکول نہ ہوں۔ ہائی سکول اور خصوصاً کالج کے طلباء کے لئے سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جائے۔
مردمشماری کے اعداد و شمار کا سہارا لیا جائے اور آبادی کے تناسب سے سکول اور کالج بنائے جائیں۔ طلباء کی تعداد کو جانچا جائے اور اس حساب سے ان اضلاع کے اندر یونیورسٹیاں بنائی جائیں جو طلباء کے لئے قابل رسائی ہوں اور دور کے طلباء کے لئے ہاسٹل کا بندوبست بھی کر لینا چاہیے۔
نوکریوں میں مقامی امیدواروں کو ترجیح دینی چاہئے تاکہ لکھے پڑھے نوجوانوں کو روز گار مل سکے اور مستقبل میں پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
نوجوان طبقہ اپنے خاندان والوں کو قائل کر سکتا ہے کہ اس کے چھوٹے تعلیم حاصل کر سکیں۔ لکھے پڑھے نوجوان علاقے کے بچوں کو فارغ اوقات میں پڑھایا کریں، جو نوجوان کاروبار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بچے کام کرتے ہیں ان کو ضرور پڑھائیں۔
نوجوان فلاحی کام کریں اور لوگوں کی سوچ بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ لوگ جان سکیں کہ تعلیم کا مقصد صرف نوکری نہیں بلکہ اس کا مقصد ایک با شعور شہری بننا ہے۔
نوجوان حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کریں، لوگوں میں آگاہی پیدا کرں۔ نوجوان چونکہ اکثر اپنے گھر کے لئے کمانے والے ہاتھ ہوتے ہیں تو وہ اپنے چھوٹوں کو موقع فراہم کر سکتے ہیں کہ وہ پڑھیں اور آگے بڑھیں۔
نوجوان اپنے چھوٹوں کو یہ بھی سکھا سکتے ہیں کہ کمائی اور تعلیم دونوں ساتھ ہو سکتی ہے تاکہ بچہ کم سے کم بنیادی تعلیم تو حاصل کر سکے۔
نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم دی جائے تاکہ وہ اچھے اور جدید طریقوں سے کما سکیں کیونکہ اکثریت نوجوانوں کے ہاں اچھی تعلیم نہیں ہوتی۔ یہ ایک طویل مدتی کوشش ہے لہذا اک دم اس کا نتیجہ ملنا اور توقع نہیں کرنا چاہئے لیکن امید کا دامن تھامے رکھنا چاہئے۔
مضمون نگار ضلع مہمند سے اقوام متحدہ کے پروگرام برائے ترقی کے یوتھ امبیسیڈر ہیں۔