قبائلی صنف نازک،جائز حقوق اور ثقافتی بندشیں
جاوید حسین آفریدی
جس شدت سے قبائلی عوام ریاست سے اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں جو بلاشبہ ان کا حق ہے، اسی شدت سے میں تمام قبائلی مرد حضرات جو ایک خاندان میں ریاست کا مقام رکھتے ہیں، ان سے صنف نازک کے جائز حقوق کا مطالبہ کرتا ہوں۔ انہیں احساس دلانا چاہتا ہوں کہ دوسرے علاقوں کی نسبت قبائلی خواتین کی زندگی تقریباً ہر لحاظ سے قابل رحم ہے، مجبوریاں اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہیں، یہ بلاگ قبائلی خواتین کے سلگتے مسائل، وجوہات، رکاوٹوں اور ممکنہ حل کے بارے میں آپ کو بہت کچھ بتائے گا۔
قبائل کی تاریخ مردانگی، جنگ و جدل، بہادری اور پیٹریارکل معاشرے پر مبنی ایک سلسلہ ہے جہاں قبائلی روایات کی پاسداری ایمان کا حصہ سمجھا جاتا ہے، تاریخی حوالے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قبائل نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا اور اسکی ایک بنیادی وجہ اسلامی احکامات اور قبائلی ثقافت و روایات میں بڑی حد تک ہم آہنگی کا ہونا تھا، جس کی وجہ سے قبائل نے قبولیت اسلام کے بعدبھی اسلامی احکامات میں تحقیق اور پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور رفتہ رفتہ لا شعوری طور پر اپنی روایات ہی کو اسلامی احکامات سمجھنا شروع کیے، اگر ہم چیدہ قبائلی روایات پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ قبائلی کلچر میں آج تک عصری تعلیم کا حصول ایک غیر ضروری کام سمجھا جاتا ہے، یہاں برداشت اور معافی کو ڈرپوک ہونے سے تشبیح دی جاتی ہے، بدلہ لینا غیرت کی نشانی سمجھی جاتی ہے، انہی روایات کے نتیجے میں عورت اپنے ساتھ جڑے معاشرے کی ہر قسم حصہ داری سے مستثنی قرارپاتی ہے، یہاں عورت کی خواہش رد کرنے کو عین ثواب سمجھا جاتا رہا ہے، بہن پر بھائی کو ہر قسم کی فوقیت حاصل ہے اور جہاں عورت خاندان کے مرد کیلئے ایک پراپرٹی کی حیثیت رکھتی ہے گویا یہاں عورت سماج میں کوئی ایک قدم بھی مرد کی اجازت کے بغیر نہیں اٹھا سکتی، عرض یہاں عورت کے بارے میں بات کرنا ایک مضبوط ٹیبو کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عورت کے حقوق کی بات کرنا، بے راہ روی، بے پردگی یا حقوق نسواں کے نعرے کا استعمال کر کے کسی ایجنڈےکا اس بلاگ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ایک درد دل رکھنے والے قبائل کی طرف سے قبائلی بہن بیٹیوں کے ان جائز حقوق کا مقدمہ ہے جسے ہم نے شاید غیر ارادی طور پر دبایا ہے اور بد قسمتی سے جائز سمجھتے رہے ہیں، قبائلی عوام کی عورت بیزار سوچ میں زیادہ کردار یہاں کے نیم مذہبی ملاؤں کا بھی رہا ہےجنہوں نے ہر اس آیت و حدیث کی من چاہی تشریحات کیوجہ سے قبائلی ذہنیت کو انتہا پسند اور زن بیزار بنانے میں مدد دیاور وہ تمام احادیث و آیات چھپائیں جن سے برداشت، سماجی ترقی اور معاشرے میں عورت کا مثبت کردار رونما ہو، ستم ظریفی یہ بھی ہوئی کہ عام قبائلی نوجوان نے خود مطالعے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جس کا لازمی نتیجہ یہ رہا کہ دیگر مسائل کی طرح قبائلی عورت کے حقوق بھی مذہبی انتہا پسندی کےبھینٹ چڑھ گئے، یوں قبائلی عورت حقوق کے لحاظ سے پستیوں کی انتہاؤں میں جا گری، ان اسلامی اور جائز حقوق سے بھی محروم ہوئیں جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے عطا کئے تھے، آج قبائلی اضلاع کی عورت ایک معذور ہستی کی طرح ہمیشہ مرد کی محتاج رہی ہے یہاں تک کہ وہ اپنے ذاتی مسائل بھی مرد کی اجازت کے بغیر حل کرنے سے قاصر ہے۔
تعلیم کا حصول ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، دراصل یہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے مگرخیانت یہاں پر یہ کی گئی کہ اس حدیث کو جب بھی ہمارے نیم ملاؤں نے بیان کیا تو بجائے علم کے حصول کو "اسلام کی تعلیم” کا خود ساختہ جامہ پہنا دیا حالانکہ حدیث کے الفاظ میں "طلب العلم” کا مرکب آیا ہے "طلب العلم الاسلام” کا نہیں، جس کا اردو میں سادہ سا مطلب "علم کا حصول” ہے "اسلامی علم کا حصول” نہیں، مگر چونکہ ہم نے کبھی خود پڑھنے اور تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اسلئےاندھے تقلید کی وجہ سے ایسے مبالغہ آمیز تشریحات کو مانتے رہے ، اسی طرح کی کم فہمی علم کے حصول میں "مرد اور عورت یا صرف مرد” کے بارے میں بھی غالب رہی، خیر آجحالت یہ ہے کہ قبائلی خواتین میں صرف بنیادی تعلیم (پرائمری) کا تناسب بھی تقریباًنہ ہونے کے برابر ہے البتہ یہ الگ بات ہےجو لوگ فاٹا کی ثقافتی بندشوں کے حدود سے نکل کر اپنی بہن بیٹی پر تعلیم کے دروازے کھول دیتے ہیں، وہ پھر بھی پشتون کلچر اور روایات کا خیال رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے ایسے لوگ دوبارہ فاٹا کا رخ نہیں کرتے۔
خواتین کی تعلیم کیساتھ بے تہاشا مسائل جڑے ہیں، یہاں نا سکول کالج کی عمارتیں ہیں، نا استانیاں اور باقی سہولیات موجود ہیں البتہ استانیاں تو اسلئے بھی موجود نہیں کیونکہ ہم نے خود اپنی بچیوں کی تعلیم روایات و ثقافت کیلئے قربان کی، نتیجہ یہ رہا کہ آج بھی فاٹا کی خواتین مرد ڈاکٹروں کیساتھ اپنے تمام طبی مسائل شریک کرتی ہیں کیونکہ پورے فاٹا میں ایک بھی ایم بی بی ایس فی میل ڈاکٹر موجود نہیں، یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ جو غیرت ہم بیٹی کو تعلیم نہ دینے میں دکھاتے ہیں وہ غیرت تب کہاں چلی جاتی ہے جب ہماری خواتین ایک غیر محرم کیساتھ وہ ذاتی مسائل شریک کرتی ہیں جو یا تو کسی عورت یا اپنے شوہر کیساتھ شریک کر سکتی ہیں، دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ مائیں نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تربیت کی شروعات غیر تہذیب یافتہ طور پر ہو جاتی ہے،علم نفسیات کے مطابق بچے کی سیکھنے کا سب سے اہم مرحلہ ماں کا گود ہوتا ہے جہاں بچے کا دماغ تازہ اور جلد سیکھنے کی حالت میں ہوتا ہے، مگر قبائلی ماوؤں کی حالت خود قابل رحم ہوتی ہے مائیں بےچاری حالات کی ستم کی وجہ سے اپنےمسائل حل نہیں کر پاتی اپنے بچوں کی تربیت خاک کر سکیں گی۔
شادی کے حوالے سے قبائلی لڑکیاں بے شمار مسائل کا شکار رہی ہیں، یہاں لڑکی کی شادی صرف والد یا گھر کے سربراہ کی مرضی سے ہوتی ہے، بیٹی خود کو ایک بھیڑ بکری کی طرح محسوس کرتی ہے، والد اسکی جہاں کہیں بھی بات طے کرے بیٹی کو ہر حالت میں سر تسلیم خم کرنا پڑتاہے کیونکہ انکار کرنے کو روایات سے غداری قرار دی جاتی ہے، لڑکی سے پہلے تو پوچھا نہیں جاتا اور اگر پوچھا بھی لیاجائے تو اس درجے پرجب بات اکثر طے ہو چکی ہوتی ہے، یعنی صرف "ہاں” سننے کیلئے ہی پوچھا جاتا ہے اسلئے محض اقرار کی ہی گنجائش رہتی ہے،بہت ساری بچیوں کےوٹا سٹا کے ذریعے رشتے طے پائے جاتے ہیں جس سے عموماً بڑی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں مگر یہ رسم اب آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے، البتہ کم عمری کی شادیاں ابھی بھی کروائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ڈپریشن، جنسی بیماریاں اور کمزور اولاد جیسے مسائل جنم لیتے ہیں، میرے علم میں ایسے کئی واقعات ہیں جو قبائلی لڑکیوں کیساتھ رونما ہوئے، بالخصوص شادی کے حوالے سے کچھ واقعات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جو مقامی خواتین نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتائے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
خیبر میں ایک لڑکی نے پسند کی شادی کے بارے میں اپنے خاندان والوں کواپنی خواہش کا اظہار کیا، اظہار کیساتھ ہی گھر میں ایک کہرام مچ گیا، لڑکی کے والد نے بہت برا منایا، والد نے بیٹی کو طرح طرح کی دھمکیاں دی، ذہنی ٹارچر کیا مگر بیٹی پھر بھی اپنے انتخاب پر ڈٹی رہی اور دوسری طرف لڑکا بھی مسلسل رشتے بھیجتا رہا، اس دوران خاندان والوں کے مابین کئی جرگے بھی منعقد ہوئے، بالآخر لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کو عاق کرنے کا اعلان کیا اور بنا کسی رسم اور شادی بیٹی کو لڑکے کے خاندان بھجوا دیا، لڑکے میں ایسی کوئی خرابی نہیں تھی جو انکار کا سبب بنتی مگر اصل مسئلہ بیٹی کا اپنی پسند کا اعتراف تھا جسے والد ہضم کرنے کیلئے ہرگز تیار نہ تھا۔
وزیرستان کے ایک علاقے میں لڑکی کا اس کے چچا زاد کیساتھ زبردستی رشتہ طے کیا گیا، لڑکی کو یہ رشتہ قطعی قبول نہیں تھا اس نے اپنے گھر والوں سے شدید احتجاج کیا، مگر گھر والوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر ٹال دیا کہ شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، مگر شادی کے بعد لڑکی کی زندگی مزیداجیرن ہوئی، اس نے گھر والوں کو اپنی ناپسندیدگی سے آگاہ کیا مگر اب کیا کیا جا سکتا تھا، شادی ہو چکی تھی اور فاٹا میں شادی ایک ایسا عہد ہوتا ہے جسے کبھی نہیں تھوڑا جا سکتا، اسلئے لڑکی نے کئی بار خودکشی کی کوشش کی، خود کو بجلی کی کرنٹ سے مارنے کی کوشش کی مگر موقع پر بچا لی گئی، اب اس کے شوہر نے دوسری شادی کرکے اس کو مزید اذیت میں مبتلا کر دیا ہے، نا وہ خود طلاق دے رہا ہے اور نہ وہ مظلوم خاتون خلع لے سکتی ہے، البتہ فاٹا میں خلع لینے کا کانسپٹ سرے سے موجود ہی نہیں، ان اذیت ناک حالات کی وجہ سے وہ لڑکی اب نیم پاگل ہو چکی ہے، مجھے یہاں وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے، جب ایک عورت کا نکاح اس کے والد نے زبردستی کرایا تو وہ حضور پاکؐ کے پاس بطور احتجاج آئی اور کہا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح ایسے شخص کیساتھ کرایا ہے جو وہ پسند نہیں کرتی، حضورؐ نے اسکی رضامندی سے اس کا نکاح فسخ کیا اور فرمایا کہ اس شخص کیساتھ نکاح کرو جسے تم پسند کرتی ہو۔
اسی طرح ضلع کرم میں ایک جوان عورت کا شوہر انتقال کر گیا، کچھ عرصے بعد اسکی بہنوں کے توسط سے اس کے میکے رشتہ آیا ، ان لوگوں نے بیوہ عورت کی رضامندی معلوم کی تو وہ اپنی خوشی سے دوسری شادی کیلئے راضی ہوئی مگر اس کے میکے والوں نے یہ اپنی بے عزتی قرار دے کر اس رشتے کا سختی سے انکار کیا ، اب وہ جوان عورت جس کے ابھی بچے بھی نہ ہوئے تھے، اس کو کیا دوسری شادی کا حق نہیں؟ کیا اسے اب اپنی نسوانیت معاشرے کے ان نام نہاد غیرت اور روایات کی نظر کرنی چاہئے؟ اگر بلفرض وہ اپنی جوانی کی وجہ سے کسی الزام میں گرفتار ہو جائے تو ذمہ دار وہ عورت ہوگی یا اس علاقائی رسم و رواج پر ذمہ داری عائد ہوگی؟
خواتین کے مسائل میں ایک سلگتا ہوا مسئلہ وراثت کا بھی ہے شاید ہی کوئی اس پر بات کرتا ہو، اسلام نے وراثت میں عورت کو مرد کا آدھا حصہ اس کا حق قرار دیا ہے مگر یہاں ایسا کوئی حق نہیں مانا جاتا، اس حوالے سے وزیرستان کی ایک خاتون سوشل ایکٹوسٹ نے بتایا کہ خواتین کو تمام قبائلی اضلاع میں وراثت و جائداد میں حصہ دار نہیں مانا جاتا، اس کی وجہ یہاں کی ایک قدیم روایت ہے اس کے تحت جائداد میں باہر کا قبیلہ حصہ دار نہیں بن سکتا اور چونکہ عورت کی شادی کہیں اور کسی بھی قبیلے میں ممکن ہے اسلئے جائداد میں حصہ دینا قبائلی روایات کے عین مخالف ہے، اگر کوئی عورت شادی کے بعد اس کا مطالبہ کرے تو اسے برا بلا کہا جاتا ہے، نافرمان بہن بیٹی کے طعنے دئیے جاتے ہیں جبکہ بعض دفعہ تو بات قطع تعلقی تک پہنچ جاتی ہے اسلئے یہ مسئلہ لٹکتا ہوا رہ جاتا ہے، وہ مزید کہتی ہے کہ اگر اسلام کے اس جائز حکم کو اس انداز میں نہیں مانا جاسکتا تو کم از کم اپنی بہن بیٹی کے اس حصے جتنے پیسے یا کوئی اور نعمل البدل پیش کیا جا سکتا ہے، البتہ بیٹی اپنی مرضی سے اپنا حق معاف کرے تو اس پر شوہر کی طرف سے زبردستی نہیں کرنی چاہئے۔
قبائلی اضلاع کی خواتین کیلئے ریفریشمنٹ کا بھی کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے، کوئی فیملی پارک ہے نا ہی کوئی کمیونٹی اور ری ہیبلیٹیشن سنٹر جہاں خواتین آپس میں سماجی روابط بڑھا کر کوئی مہارت سیکھ سکے یا کسی ذاتی مسئلے کے سلسلے میں ایک تعلیم یافتہ اور سوشل خاتون سے رہنمائی حاصل کر سکے، ایک قبائلی خاتون جب بھی نظر آئے تو محض گھر کے کام کاج میں مصروف نظر آئے گی جو بذات خود عورت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے مگر ساتھ میں اگر وہ اپنی کمیونٹی کیلئے کوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اسے ضرور ادا کرنا چاہئے، اس سے مقامی خواتین میں علمی، دینی، سماجی اور قدرے سیاسی آگاہی بڑھنے کا موقع فراہم ہوگا، اس کے نتیجے میں خواتین اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں گی، ایک طرف اگر مرد عورت سے ان کے فرائض کی بجا آوری کا پر زور مطالبہ کرتے ہیں دوسری جانب جب عورت اپنے جائز حقوق سے آشنا ہوں گی تو معاشرے میں توازن بڑھے گا اور فائدہ مجموعی طور پر معاشرے کو ہی پہنچے گا کیونکہ ہمارے دین اسلام میں مرد کیلئے اس کی مردانگی قابل فخر ہے اور نا عورت کیلئے اس کی نسوانیت قابل عار ہے۔
خواتین کا قبائلی اضلاع میں سماجی حوالے سے بھی صفر کردار رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ بھی تعلیم و شعور کی عدم فراہمی اور سماجی و ثقافتی بندشیں ہیں جس کی وجہ سے عورت کا کردار اپنے اصل سے بھی کافی محدود اور سکڑ گئی ہے، یہاں عورت کھیتوں میں کام کرنے کیلئے مردوں کے شانہ بشانہ تو کام کر سکتی ہے مگر بد قسمتی سے معاشرے کی بہتری یا کم از کم اپنی کمیونٹی کی بھلائی کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی، اس حوالے سے سماجی تنظیموں کو خواتین کے قانونی اور مذہبی حقوق کو اجاگر کرنے کیلئے مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، قبائلی خواتین کیلئےپشتون روایات کے اندر رہ کر ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے، تعلیم کا شعبہ، صحت کا شعبہ، سماجی مسائل کے شعبے جیسے محکموں میں کردار ادا کرنا چاہئے۔
آخر میں اپنے تمام قبائلی دوستوں بھائیوں اور بزرگوں سے دردمندانہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ عورت کو ثقافتی بندشوں کی نذر نہ کریں، ان کو وہ تمام حقوق بلا جھجک دیں جو ہمارے دین اسلام نے دئیے اور ہمارے اسلامی معاشروں کی پہچان رہی ہیں، میں گزارش کرتا ہوں کہ عورت ایک ٹیبو کے طور پر نہ لیاجائے بلکہ معاشرے کا ایک مکمل اور حقوق کے لحاظ سے برابر انسان کے طور پر لیں،بیوی کو محکوم نہ سمجھیں بلکہ معاشرے کی رسموں سے قطع نظر ایک دوست ایک ساتھی کے طور پر سمجھنے کی کوشش کریں، خواتین کو بیشتر فیصلوں اور مشترکہ مسائل کے حل میں شریک کریں، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرے میں عورت کی حیثیت و کردار کا بذات خود مطالعہ کریں، اسلام کے اس لبرل شکل کو بھی دیکھیں جو ہمارے نیم ملاؤں نے ہمیں نہیں دکھائی، ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ایک عورت اپنے حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے بزنس کر سکتی ہے، ایسی جاب کر سکتی ہے جہاں پر اس کے پردے اور حدود میں خلل نہ ہو، اپنی کمیونٹی کی بہتری کیلئے عملی کام کا حصہ بن سکتی ہے، ڈرائیونگ کر سکتی ہے، تعلیم حاصل کر کے معاشرے کے بیٹے بیٹیوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں صف اول کا کردار ادا کر سکتی ہے، خاتون اگر خود تعلیم یافتہ ہو تو اس بات کا سو فیصد امکان ہے کہ اس کا بیٹا ایک کامیاب اور معاشرے کیلئے بہتر انسان ثابت ہوگا، بیٹے اور بیٹیوں کے مابین اس فرق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، جو حقوق ایک بیٹے کا اپنے والدین پر ہیں وہی حقوق ایک بیٹی بھی رکھتی ہے، ہمیں ان دو اصناف کے مابین اس خلا اور ترجیحات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر عورت کو حوصلہ دینے اور اس پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہم عورت پر اعتماد اور بھروسہ ہی نہیں کر سکتےتو گھر کی چار دیواری میں پرسکون زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟
ایک مسلم خاتون کی حیثیت و ذمہ داری،حقوق و کردار اور مغربی و مشرقی خواتین کا تقابل سمجھنے کیلئے ایک جامع مضمون جو مادام تزئین حسن صاحبہ نے قلم بند کیا ہے، تمام قارئین کی ذوق نظر کرتا ہوں، مضمون کا عنوان ہے ” اسلامی حقوق نسواں اور امت کا عروج و زوال – تزئین حسن”۔