کورونا وائرس۔۔ وباء یا سازش مگر ہے ایک تلخ حقیقت
اعجاز الحق
ہمیں اسلام نے چودہ سو سال قبل مختلف وبائی امراض سے آگاہی دی ہے اور ساتھ میں ان وبائی امراض سے بچنے اور اس سے دوسروں کو بچانے کے ساتھ ساتھ زندگی کی روانی کو دوسری ڈگر پر ڈالنا اور چلنا سیکھا۔
کورونا ئراس وباء یا سازش البتہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس مرض سے روزانہ لوگ مر رہے ہیں، دنیا بھر میں ایک کروڑ کے قریب متاثر تو ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ لاکھوں افراد متاثر ہو کر صحت یاب بھی ہو چکے تاہم دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے یونیورسٹیز اور سائنسدانوں نے میڈیکل ریلیف کے ساتھ ساتھ اینٹی بائیوٹک تیار کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنا شروع کیں۔
دوسری جانب ایشیائی ممالک جن میں پاکستان، انڈیا، افغانستان، نیپال اور سری لنکا سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں کورونا وائرس کے خلاف کسی دوا کے ایجاد کرنے کے بجائے کاروباری صنعت کو فروغ دینا شروع کیا گیا، مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی جبکہ ہاتھوں کے جراثیم کو کلین کرنے والے سینیٹائزر سے لے کر منہ باندھنے والے ماسک کی قمیتیں آسمان سے باتیں کرنی لگیں، جسم کے نارمل درد کو دور کرنے والی گولیوں کی قمیتیں بھی ایسے بڑھنا شروع ہوئیں جیسے جنگ عظیم دوئم میں جرمن افواج ملک در ملک فتح کرتے آ رہے ہوں۔
غریب و متواسط طبقہ روزانہ دیہاڑی کمانے کے بجائے جان و صحت کو بچانے میں لگ گیا، حکومت کی عملی اقدام کے بجائے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوِں کو گھر کی دہلیز پر بیس ہزار کا چیک میسر آئے لیکن سفید پوش دیہاڑی دار افراد نام نہاد لاک ڈاؤن میں مقروض سے مقروض تر ہوتے گئے۔
کورونا وائرس نے پاکستان کے ہر طبقے کو متاثر کیا لیکن امیروں اور بڑے مگرمچھوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔
ہم۔جس ملک خداداد میں رہتے ہیں یہاں ٹیکس پیڈ ہونے کے باجود انصاف کے ساتھ ساتھ ہسپتال، تعلیم، قانون اور دیگر ضروریات زندگی کے اصول کو حاصل کرنے کے لیے تعلق و سفارش ضروری ہیں لیکن اس کے لیے پہلے فرد کو یا تو پیسے والا ہونا چاہیے یا سیاسی یا جرائم پیشہ ہونا چاہیے بصورت دیگر کسی بھی مقدمے میں پکڑے گئے تو جائیداد سے لے کر عزت سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔
گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی، صحت کی سہولیات، تعلیم کی مفت فراہمی، سیایست سے بالاتر قانون اور نوجوانوں کو ان کے ذہن کے مطابق ہنرمند بنانے کے فیصلے ہی ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
آنے والا دور الیکٹرک دور ہو گا، گھر میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے سے لے کر خریداری تک ہر چیز آن لائن دستیاب ہونے لگے گای تو ہمیں چاہئے کہ مشکلات کو آسان کرنے کے لئے ہم خود کو تیار کریں جبکہ گورنمنٹ کو سنجیدہ ہو کر ان مشکلات کا حل نکالنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں