بلاگز

”ہال کو کھیت سمجھو اور حاضرین کو آلو، ٹماٹر یا کدو!”

ممانڑہ آفریدی

2011 میں جب میں نے گریڈ فور (چوتھی جماعت) کا ششماہی امتحان دیا تو میرے کلاس ٹیچر نے مجھ سے کہا، "ممانڑہ! تم اگر پھر واش روم میں جا چھپی اور سٹیج پر آنے سے گریز کیا تو امسال ہم تمہیں ٹرافی نہیں دینے والے۔”

میں نے التجا کی، ”سر پلیز! میں مجمعے کا سامنا نہیں کر سکتی۔”

انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور چل پڑے۔ جب پہلی پوزیشن کے لئے میرے نام کا اعلان ہوا، میں تھوڑا حوصلہ کر کے سٹیج پر چلی گئی، جیسے ہے تالیاں بجاتے کراؤڈ (مجمع) پر میری نظر پڑی، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں بے ہوش ہو گئی۔

کچھ (ہی) ماہ بعد میرے استاد نے مجھے چیلنج کیا، "ممانڑہ! تم بھلا کی ذہین ہو، ہر مضمون اتنا تخلیقی لکھ لیتی ہو تو پھر کیوں ان خیالات کو بیان کرنے کا اعتماد تم میں نہیں ہے۔ ہمیں عالمی تقریری مقابلے کے لئے ایک طالبہ کو نامزد کرنے کا کہا گیا ہے، تم شروع سے ہمارے سکول کی ٹاپ سٹوڈنٹ ہو، مجھے یقین ہے تم نامزد ہو جاؤ گی اس لئے ذہنی طور پر تیاری کر لو۔”

ایک رات ہم اپنا ڈنر تیار کر رہے تھے جب فون کی گھنٹی بجی، یہ ہمارے استاد کی کال تھی جو ابو نے ریسیو کی جو ایک لمحہ بعد تقریباً چیخ پڑے، ” کیا؟” ہم سب اپنی جگہ اچھل پڑے اور حیران تھے کہ وہ بھلا کیوں ایسا چیخنے لگے۔

ان سے پتہ چلا کہ ہمارا سکول دھماکے سے اڑا دیا گیا ہے۔ ہم سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ چھوٹا بھائی خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا، ”ہُرا! یس، آئی ہیو ناٹ ڈَن مائی ہوم ورک (میں نے اپنا ہوم ورک نہیں کیا ہے)۔”

سب نے اس کی طرف آنکھیں نکال کر دیکھا تو بھائی نے منہ بند کر دیا تاہم دبی دبی سی ہنسی پھر بھی ہنسنے لگا، ”مذاق کر رہا ہوں۔” (اس رات) کسی نے بھی کھانا نہیں کھایا نہ ہی کوئی سو پایا۔

ابو نے پرنسپل کو بتایا کہ بچوں کا ایک سال ضائع نہیں کیا جا سکتا اور مشورہ دیا کہ فائنل امتحانات کا انتظام کیا جائے مگر مسئلہ یہ تھا کہ آخر کہاں؟ کیونکہ سکول، سارا کا سارا، تو ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ ہمارے دو پرچے قریبی مسجد میں ہوئے مگر مولوی صاحب کو اعتراض ہوا۔ ”لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے مسجد میں بیٹھنا باعثِ شرم ہے، یہ عبادت کی جگہ ہے لیکن تم لوگ اسے امتحانی ہال بنا کر اسے ناپاک کر رہے ہو۔” مولوی صاحب نے فرمایا۔

ہمارے باقی کے سارے پرچے باہر سروس روڈ پر  ہوئے کیونکہ امتحان کے لئے جگہ دینے سے سبھی خوفزدہ تھے۔ ہمارا آخری پرچہ تھا جب پرنسپل نے مجھے بلوا بھیجا۔ میں ان سے ملنے گئی تو وہ ایک درخت کے سائے میں ایک پتھر پر بیٹھے فائلوں کے ڈھیر میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔ مجھے ان پر بڑا ترس آیا۔

”یہ ملا۔ ممانڑ آفریدی۔ ہمیں تھائی لینڈ میں ہونے والے ایک عالمی تقریری مقابلے میں حصہ لینے کے لئے ایک طالبعلم کو نامزد کرنے کا کہا گیا، کیا تم اس میں حصہ لینا چاہتی ہو؟” انہوں نے پوچھا۔

میں ایک لمحہ کے لئے سوچ میں پڑ گئی، جی میں آیا کہ کہہ دوں کہ ”مجھ سے تو اپنی دوست تک سے بات نہیں ہو پاتی بھلا کسی مجمعے کے سامنے تقریر کیسے کروں گی؟” لیکن میں نے بڑے احترام سے جواب دیا، "جی سر! میں حصہ لینا چاہتی ہوں۔”

خیبر میں اچھی خاصی سردی تھی۔ میں نے سفری بیگ تیار کیا، تین مخمل کے جوڑے، دو جوڑا شوز اور ایک اضافی سویٹر بھی رکھ دیا۔ میری والدہ کافی خوش تھیں (پرجوش)  انہوں نے تندوری روٹی پکائی، آملیٹ تیار کیا اور گھی میں تلا ہوا پراٹھا، میں نے خلاف معمول کچھ زیادہ ہی کھایا۔ انگریزی کے استاد ہمارے ساتھ تھے، میرے بیگ پر ان کی نظر پڑی تو بول اٹھے کہ اتنا بھاری بیگ کیوں، ہم تو ایک دن کے لئے بھی نہیں جا رہے، میں نے جواب دیا نہیں سر! کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہمیں تیار رہنا چاہئے۔

خود کو گرم رکھنے کے لئے میں نے سیاہ مخملی جوڑا زیب تن کیا، پشاور کا موسم خیبر کے مقابلے میں خاصا گرم تھا، میرا لباس کافی عجیب لگ رہا تھا اور مجھے گرمی بھی لگ رہی تھی لیکن میں ایسے ظاہر کر رہی تھی جیسے سب کچھ ٹھیک ہے۔

لڑکیوں میں سے ایک بولی، ”کیا تمہارے پاس کپڑے نہیں ہیں، اتنے پرانے اور گرم کپڑے پہن کر تم ٹھیک تو ہو نا؟ میں تمہیں اپنا جوڑا دے دوں گی۔ (ہنسی)”

تربیتی افسروں میں سے ایک، جن کا نام ثناء اعجاز تھا، پہنچیں وہ شرکاء میں سے ہر ایک کے پاس گئیں تاکہ ان کی حاضری لگوائیں، مجھ سے پوچھا، پیاری گڑیا! تمہارا نام کیا ہے؟

تھوک نگلتے ہوئے میں نے جواب دینا چاہا، ”میرا نام ۔۔۔” اپنی آواز میرے کانوں میں گونجنے لگی۔

انہوں نے دوبارہ پوچھا، ” معذرت چاہتی ہوں” (کیا نام ہے؟)

میں نے گلا صاف کیا اور دوبارہ جواب دیا، ”ممانڑہ آفریدی”

انہوں نے میرے گالوں پے چٹکی لے کر کہا، ”واؤ! کیا دلکش پشتو نام ہے”

میں ان کی طرف مسکرا دی۔ میں پہلی مرتبہ کسی ایسے آدمی سے ملی جس نے میرے نام کی تعریف کی ورنہ میرے نام کو لے کر ہر کوئی میرا مذاق ہی اڑاتا تھا۔

”پلیز مجھے نہ بلائیے گا، میں بڑی نروس ہوں اور حصہ نہیں لینا چاہتی۔” میں نے گزارش کی۔

انہوں نے مجھے گلے لگایا اور کہا، ”میرا یقین کرو، تم یہ کر سکتی ہو (بس) ہال کو ایک کھیت اور حاضرین کو آلو، ٹماٹر اور کدو سمجھ لینا۔”

جب وہ چلی گئیں تو وہ گروپ، جو میرا مذاق اڑا رہا تھا، پوچھنے لگے کہ ثناء اعجاز نے تمہیں گلے کیوں لگایا، میں نے انہیں نظرانداز کر دیا۔

ان میں سے ایک بولی، ”مجھ سے لکھ کر لے لو یہ لڑکی چنی (منتخب) کی جائے گی، بلاشبہ یہی ہو گی۔ تم (لوگ) جلد ہی اقرباء پروری اور جانبداری کی ایک عملی مثال دیکھ لو گے۔”

میں خود سے وہ الفاظ بڑبڑانے لگی، ” یہ آلو، ٹماٹر اور کدو ہیں۔”

میرے استاد پاس آئے اور پوچھا، ”کیا پراگریس ہے؟”

میں نے جواب دیا، ” سر یہ (سارے) آلو، ٹماٹر اور کدو ہیں۔”

ان کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، پوچھا ”کیا؟”

میں نے دانتوں کو دباتے ہوئے جواب دیا، ”سر میرا مطلب ہے کہ مجھے یہ سبزیاں پسند ہیں۔”

ثناء اعجاز نے پروگرام کا آغاز کیا۔ میں ان سے اس قدر متاثر تھی کہ میں ان کے طرز نشست کو بھی کاپی کر رہی تھی، (نقل کر رہی تھی) وہ اپنے بالوں سے کھیلتے ہوئے شرکاء کو دیکھ رہی تھیں۔ میں بھی وہی کچھ کر رہی تھی جو وہ کر رہی تھیں۔ انہوں نے میرا نام لیا۔ میرا دل تیزی سے اچھلنے (دھڑکنے) لگا۔ میں جب روسٹرم پر پہنچی تو میری نظر دھندلا سی گئی، حلق خشک ہو گیا، بھلا ہو روسٹرم کا جس نے میرے کانپتے اور لرزتے ہوئے پیروں کو چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ میرا سر چکرا رہا تھا لیکن میں نے روسٹرم کو مضبوطی سے تھامے رکھا، ثناء اعجاز کے الفاظ یاد کئے اور اپنی تقریر کا آغاز کر دیا۔

میں ٹاپ ٹین میں سلیکٹ ہو گئی تھی۔ میں اتنی پراعتماد تھی کہ اپنی اگلی تقریر بڑے موثر انداز میں کر ڈالی۔ بعدازاں ٹاپ ٹین میں شامل ہم ساروں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن ٹاپ ٹھری کا رزلٹ ہفتہ بعد آنا تھا۔

ہر کوئی مجھ سے میرے رزلٹ کے بارے میں پوچھ رہا تھا اور مجھے سو فیصد یقین تھا کہ مجھے سلیکٹ نہیں کیا جائے گا۔ میں (ہر کسی سے) یہی کہتی کہ مجھے بیرون ملک جانے کا شوق نہیں۔” ایسا کہتے ہوئے دل میں چوٹ سی محسوس کرتی۔

چونکہ ہمارا سکول تھا ہی نہیں تو اپنے پرنسپل سے رزلٹ کا پوچھ بھی نہیں سکتی تھی۔

صبح سویرے ابو نے ایک کال ریسیو کی اور نم آنکھوں سے مجھے بتایا، "تم نے کر دکھایا” اور مجھے گلے لگا لیا۔

میں دوڑی دوڑی گئی والدہ کے پاس۔ ”مور (امی)!” اور ان سے لپٹ گئی۔

پلیز آج آلو، ٹماٹر اور کدو پکا لیں، مجھے ان سبزیوں سے محبت ہو گئی ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button