بلاگزعوام کی آواز

زندگی اور موت کے بیچ چند سیکنڈ کا فاصلہ: سی پی آر کیوں ضروری ہے؟

سعدیہ بی بی

کافی دنوں سے سوشل میڈیا پر ایک سکول ٹیچر کی اچانک موت کی ویڈیو نظر آ رہی تھی، اور میں خود بھی یہ ویڈیو کئی بار دیکھ چکی تھی۔ ہر بار دل میں یہی خیال آتا ہے کہ کاش وہاں موجود کسی ایک شخص کو بھی "سی پی آر”  یعنی زندگی بچانے والی ابتدائی طبی امداد کا طریقہ آتا ہوتا، تو شاید وہ استاد آج ہمارے درمیان ہوتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سب لوگ بس دیکھتے رہے، کسی نے فوری طور پر مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف چند لمحوں کی دیر سے دل کی دھڑکن بند ہو گئی، اور وہ استاد اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

کہا جاتا ہے کہ جب اللہ کا بلاوا آ جائے تو ایک لمحہ بھی دیر نہیں ہوتی، لیکن اگر ہم بروقت قدم اٹھائیں اور بنیادی طبی علم رکھتے ہوں، تو کسی کی قیمتی جان بچائی جا سکتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ لاہور کے ایک نجی سکول کریسنٹ ماڈل اسکول میں پیش آیا، جہاں اردو کے استاد نیاز احمد کو دورانِ ٹریننگ دل کا دورہ پڑا، اور وہ چند سیکنڈ میں دنیا سے چلے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، ان کی موت صرف چار سیکنڈ میں واقع ہوئی۔ اُنہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، لیکن ڈاکٹرز نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی۔ اُن کی عمر صرف 36 سال تھی۔ وہ ایک باحوصلہ اور محنتی استاد تھے۔

ایسی اچانک اموات میں اضافہ صرف عوام کے لیے نہیں بلکہ ڈاکٹروں کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔ اسی لیے میں نے پولیس اینڈ سروسز اسپتال پشاور کے سینئر ڈاکٹر ڈاکٹر اسلم خان مہمند سے بات کی۔ مقصد یہ جاننا تھا کہ دل کا دورہ یا اچانک موت کی اصل وجوہات کیا ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر اسلم نے بتایا کہ ایسی اموات کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے ہائی بلڈ پریشر، دل کی خاموش بیماریاں، شوگر، ذہنی دباؤ، اور غیر صحت مند طرزِ زندگی۔ انہوں نے نیاز احمد صاحب کی موت کے حوالے سے بتایا کہ یہ کارڈیک اریسٹ کا کیس تھا۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب دل اچانک دھڑکنا بند کر دیتا ہے۔ جب دل رک جائے تو جسم، خاص طور پر دماغ کو آکسیجن نہیں ملتی، اور اگر فوری مدد نہ دی جائے تو انسان چند منٹوں میں بے ہوش ہو کر جان کی بازی ہار سکتا ہے۔ ایسے میں سی پی آر (یعنی فوری طبی امداد) کا کردار بہت اہم ہو جاتا ہے۔

سی پی آر کیا ہے؟ سی پی آر ایک فوری طبی طریقہ ہے جو دل کی دھڑکن یا سانس رک جانے کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دماغ اور جسم کو آکسیجن کی فراہمی جاری رکھنا ہوتا ہے جب تک مکمل طبی مدد نہ پہنچے۔ سی پی آر میں دو کام کئے جاتے ہیں: سینے پر مخصوص انداز سے دباؤ دینا۔ مصنوعی سانس دینا (اگر تربیت ہو تو)۔ یہ طریقہ درست انداز اور بروقت کیا جائے تو زندگی بچا سکتا ہے۔

سی پی آر دینے کا آسان طریقہ: سب سے پہلے دیکھیں کہ مریض ہوش میں ہے یا نہیں، اور سانس لے رہا ہے یا نہیں۔ اگر مریض بے ہوش ہے اور سانس نہیں لے رہا تو فوراً ایمرجنسی سروس (جیسے 1122) کو کال کریں۔ مریض کو کمر کے بل سیدھا، کسی سخت جگہ پر لٹا دیں۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے کے درمیان رکھ کر دباؤ دیں۔ ایک منٹ میں تقریباً 100 سے 120 بار (یعنی ہر سیکنڈ میں 2 بار) ہر دباؤ کے بعد ہاتھ ہٹا کر سینے کو اپنی جگہ واپس آنے دیں۔

اگر آپ نے تربیت حاصل کی ہے، تو ہر 30 دباؤ کے بعد مریض کے منہ سے دو بار سانس دیں۔ اگر تربیت نہیں ہے، تو صرف سینے کو دبانا بھی بہت مددگار ہوتا ہے۔ یہ عمل اُس وقت تک جاری رکھیں جب تک مریض سانس لینا شروع نہ کرے یا ایمبولینس نہ پہنچ جائے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے سی پی آر سے متعلق بہت کم آگاہی ہے۔ چاہے کوئی تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو، اکثر لوگوں کو نہ اس عمل کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کرنے کی ہمت۔  یاد رکھیں، سی پی آر کرنے والا شخص ڈاکٹر نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ صحیح وقت پر صحیح قدم اٹھائے تو کسی کی جان بچا سکتا ہے۔

سی پی آر ایک ایسا علم ہے جو صرف پانچ منٹ میں سیکھا جا سکتا ہے، لیکن یہ پانچ منٹ کسی کی پوری زندگی کو بچا سکتے ہیں۔ خدارا، سی پی آر سیکھیں خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔ یہ چھوٹا سا عمل کسی کے لیے نئی زندگی کا سبب بن سکتا ہے۔

Show More

Sadia Bibi

سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طلبہ ہیں مختلف سماجی و معاشی مثال پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں

متعلقہ پوسٹس

Back to top button