بلاگزعوام کی آواز

پیسے نچھاور کرنا: ایک روایتی عمل یا رزق کی بے حرمتی؟

ایزل خان

ہمارے معاشرے میں کئی ثقافتی روایات نسل در نسل چلی آ رہی ہیں۔ کچھ رسم و رواج وقت کے ساتھ ختم ہو چکے ہیں کیونکہ وہ لاعلمی اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے اپنائے جاتے تھے۔ جیسے جیسے شعور بڑھا، لوگوں نے ان سے کنارہ کشی اختیار کی۔ مگر کچھ روایات آج بھی قائم ہیں، جن میں شادیوں اور تقریبات میں پیسے نچھاور کرنے کا عمل شامل ہے۔ اس روایت کو خوشی کا اظہار اور مہمان نوازی کا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ بچپن سے یہ منظر میں نے کئی بار دیکھا، لیکن کبھی یہ عمل مجھے پسند نہیں آیا۔ دیگر بچے نوٹ جمع کرتے، پر میں کبھی اس میں شامل نہ ہوئی۔ تب اظہار کے الفاظ نہیں تھے، لیکن آج بھی جب ایسے مناظر دیکھتی ہوں تو دل کو دکھ ہوتا ہے۔

یہ اس لیے کہ پیسے ہمارے رزق روزی ہے اس سے ہمارے ضروریات پوری ہو رہی ہے،رزق کی اس طرح بے حرمتی بھلا کون کرتا ہے، اور ہماری والد اور بھائی اسے کمانے کے لیے بہت محنت کر رہیں ہیں۔ دن رات محنت کرنے کے بعد یہ پیسہ ہمارے کھانے پینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ میں سمجھ نہیں پاتی کہ اتنی بڑی بے حرمتی کیسے ممکن ہے؟ کیا یہ عقلمندی ہے، یا صرف ایک روایتی عمل جسے وقت کے ساتھ بدلنے کی ضرورت ہے؟

شادی بیاہ کی تقریبات میں پیسوں کو پاؤں تلے روندنا، ان پر رقص کرنا، کیا یہ جاہلانہ عمل نہیں؟ اگر یہی رقم کسی ضرورت مند کو دے دی جائے یا تحفے کی صورت میں استعمال ہو، تو خوشی بھی ہو گی اور اجر بھی ملے گا۔ ایسے کئی ذرائع ہیں جن سے خوشی کا اظہار باعزت انداز میں ممکن ہے۔ جیسے کہ انہی پیسوں سے کوئی تحفہ خریدنا، کسی کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا، یا کسی مستحق کو دینا۔ کہیں گھومنے پھرنے چلے جائیں، یا کوئی اور ایسا ذریعہ اختیار کریں جس سے دل کو راحت ملے اور اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوں۔

آج کل سوشل میڈیا پر انفلوینسرز اور یوٹیوبرز نے ایک نیا ٹرینڈ قائم کیا ہے، جب عوام وہ ٹرینڈ دیکھتے ہیں تو انہیں حیرت ہوتی ہے کہ واہ، یہ کیا کمال کر دکھایا ہے۔ اصل میں اس قسم کے غیر سنجیدہ اعمال کی روک تھام کے لیے ہمیں کچھ عملی اقدامات کرنے چاہیئے۔ اگر ہم پچھلی صدیوں کی بات کریں تو شاید یہ چیزیں عام تھیں اور اس کی وجہ تعلیم کی کمی بھی ہو سکتی تھی۔ لیکن اب جب کہ لوگوں کے پاس تعلیم موجود ہے، پھر بھی کچھ نسل غیر معقول حرکات اور غیر دانشمندانہ کاموں میں ملوث کیوں ہیں؟

اسی طرح ایک اور تکلیف دہ مشاہدہ یہ ہے کہ شادیوں میں بچا ہوا کھانا اکثر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی بہت سے افراد ایسے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ گوشت، چاول یا پھل ان کے لیے خواب سے کم نہیں۔ اگر یہی کھانا سنبھال کر ان ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیا جائے تو یہ انسانیت کی اعلیٰ مثال بن سکتی ہے۔ ایک مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے، جو معاشرے کو بہتر سمت میں لے جائے گی۔

یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں توجہ دیں تو بہت سی بڑی مثبت تبدیلیاں ہمارے معاشرے میں آ سکتی ہیں۔ آج کل بہت سارے لوگوں کے پاس مادی اعتبار سے کوئی کمی نہیں ہوتی، نہ تعلیم کی اور نہ ہی پیسوں کی۔ اگر ہم اس کے باوجود پرانے دور کے جاہلانہ کاموں میں ملوث رہیں گے تو پھر اس دور کے لوگوں میں اور موجودہ دور کے لوگوں میں فرق کیسے ہوگا؟

دیکھیں! اللہ ہر چیز کا امتحان لیتا ہے۔ اگر آج ہمیں اللہ نے غنی کیا ہے تو کل وہ ہمیں فقیر بھی بنا سکتا ہے۔ ہمارے پاس سب کچھ موجود ہونے کے باوجود ہم انسانیت نہ بھولیں، اللہ کے ساتھ تعلق نہ بھولیں اور احساس ہمارے اندر موجود ہو تو یہی سب کچھ ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو معاشرے کو سنوار سکتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button