بلاگزعوام کی آواز

قیمتی پتھر اور انسانی زندگی پر اثرات: حقیقت یا وہم؟

رعناز

قیمتی پتھر، جو عام طور پر انگوٹھیوں اور بریسلٹس میں پہنے جاتے ہیں، صرف زینت یا فیشن کی چیزیں ہی نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان کے متعلق صدیوں سے یہ خیال بھی موجود ہے کہ یہ انسان کی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پتھر خوش قسمتی، کامیابی، صحت اور روحانی سکون لاتے ہیں۔ دوسری جانب، کچھ لوگ ان نظریات کو خالصتاً ذہنی تسکین یا وہم کا نام دیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ کیا ان پتھروں میں واقعی کوئی روحانی  طاقت ہے، یا یہ صرف انسانی عقائد کا نتیجہ ہیں؟ اور کیا اسلام میں ان کے استعمال یا اثرات کا کوئی تصور موجود ہے؟

پتھروں کے متعلق عام تصورات صدیوں پر محیط ہیں۔ نیلم کو کامیابی، زمرد کو ذہنی سکون، فیروزے کو نظرِ بد سے بچاؤ اور عقیق کو رزق میں برکت کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔

کچھ لوگ برتھ اسٹون نظریے پر یقین رکھتے ہیں، جس میں ہر مہینے کے مطابق ایک خاص پتھر تجویز کیا جاتا ہے۔ جس کو رزق میں برکت کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔

سائنس کے مطابق، ان پتھروں کی اندرونی ساخت، رنگ، یا وزن انسان کی زندگی یا صحت پر کوئی مافوق الفطرت اثر نہیں ڈال سکتا۔ جدید ریسرچ کے مطابق، اب تک کوئی سائنسی تحقیق اس بات کو ثابت نہیں کر سکی کہ کسی خاص پتھر کو پہننے سے بلڈ پریشر، ذہنی دباؤ یا قسمت میں بہتری واقع ہوئی ہو۔

البتہ ایک دلچسپ پہلو ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز پر مکمل یقین رکھتا ہے، چاہے وہ چیز مادی طور پر بے اثر ہو، تو اس کا دماغ خود بخود ایسے کیمیکل خارج کرتا ہے جو جسمانی یا نفسیاتی بہتری کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کو پتھر پہن کر واقعی سکون یا بہتری محسوس ہوتی ہے، لیکن اس کا تعلق خود پتھر سے نہیں بلکہ اُس کے بارے میں شخص کے اپنے عقیدے اور توقعات سے ہوتا ہے۔

اسلام ایک توحیدی مذہب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نفع و نقصان کا اختیار نہیں دیا گیا۔ قرآن پاک کی متعدد آیات اور احادیثِ نبوی ﷺ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ انسان کی قسمت، کامیابی، بیماری، شفا اور نقصان سب اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوتے ہیں۔ اس میں کسی قیمتی پتھر کا کوئی ہاتھ نہیں۔

نبی کریم ﷺ کی سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے ایک چاندی کی انگوٹھی پہنی تھی جس پر “محمد رسول اللہ” کی مہر تھی۔ بعض روایات میں عقیق یا دیگر پتھروں کا ذکر ملتا ہے، لیکن محدثین کے نزدیک وہ روایات ضعیف یا غیر مستند ہیں۔ زیادہ تر علما اس بات پر متفق ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے انگوٹھی کو زینت یا پیغام رسانی کے لیے پہنا، نہ کہ کسی روحانی یا جادوی مقصد کے لیے۔

کیا ان پتھر کا استعمال بالکل ممنوع ہے؟

اسلام میں کسی بھی چیز کو پہننے یا استعمال کرنے کی اصل بنیاد نیت پر ہے۔ اگر کوئی شخص صرف زینت، کلر کمبینیشن یا خاندانی روایت کے تحت پتھر پہنتا ہے اور اسے نفع و نقصان کا ذریعہ نہیں مانتا، تو اس میں شرعی طور پر کوئی حرج نہیں۔ البتہ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ فلاں پتھر پہننے سے قسمت اچھی ہو جائے گی یا بیماریاں ختم ہوں گی، تو یہ نظریہ شرعی اعتبار سے درست نہیں۔ اس طرح کے عقائد انسان کو توحید سے دور کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دعا، توکل، صدقہ، اور اعمالِ صالحہ کو اصل ذریعہ نجات قرار دیا گیا ہے، نہ کہ جامد چیزوں کو۔

اعتدال پسند رویہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خوبصورتی، شخصیت کو نکھارنے یا اپنی شناخت کے اظہار کے لیے قیمتی پتھر پہنتا ہے، تو یہ ایک جائز عمل ہے۔ لیکن اس پتھر کو روحانی طاقت کا منبع سمجھنا یا اس سے غیب کے اثرات کی امید رکھنا ایک لغو اور دین سے دور نظریہ ہے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ، ایمان کا اصل مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ نفع و نقصان، خوشی و غم، کامیابی و ناکامی سب اسی کی قدرت سے ہیں۔ پتھر، دھات یا کوئی اور چیز صرف ایک وسیلہ ہو سکتی ہے اگر اللہ چاہے، ورنہ وہ بذاتِ خود کچھ نہیں کر سکتی۔

قیمتی پتھر بلاشبہ انسان کی زینت، فیشن اور ثقافتی ورثے کا خوبصورت حصہ ہیں۔ ان کا پہننا ممنوع نہیں، لیکن ان میں مافوق الفطرت طاقتوں کا یقین رکھنا اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہے۔ سائنسی لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ان پتھروں کے اثرات صرف انسانی ذہن کی کیفیت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دعا، نیک اعمال، توکل اور صبر ہی حقیقی کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ اگر کوئی چیز ہمیں روحانی سکون دے سکتی ہے تو وہ پتھر نہیں بلکہ سجدے، قرآن کی تلاوت، اور اللہ پر بھروسہ ہے۔

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button