چارسدہ میں غیرت کے نام پر بیٹی کا قتل، والد گرفتار

رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقے جبئ کورونہ میں غیرت کے نام پر باپ نے اپنی 17 سالہ شادی شدہ بیٹی کو مبینہ طور پر پھندہ لگا کر قتل کر دیا۔ واقعے کو طبعی موت قرار دے کر خاموشی سے تدفین کر دی گئی، تاہم پولیس کے خفیہ ذرائع کی بروقت اطلاع اور کارروائی نے حقائق کو بے نقاب کر دیا۔
تھانہ سٹی کے ایس ایچ او بہرہ مند شاہ نے ٹی این این کو بتایا کہ واقعہ گزشتہ ہفتے جمعرات کے روز پیش آیا۔ ابتدائی طور پر لڑکی کی موت کو قدرتی قرار دیا گیا اور تین دن تک اہل علاقہ اور عمائدین مرحومہ کے گھر تعزیت کے لیے آتے رہے۔ تاہم پولیس کو خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی کہ یہ موت قتل کا واقعہ ہے، جس کے بعد پولیس نے قل کے دن کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔
پولیس جب مقتولہ کے گھر پہنچی تو اس کے والد ریاض غائب تھے۔ اہل خانہ سے پوچھ گچھ کے دوران مقتولہ کی والدہ اور چچا کو حراست میں لیا گیا۔ دورانِ تفتیش والدہ نے اقبال جرم کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مقتولہ نے شادی کے بعد کسی مرد سے فون پر رابطہ قائم کیا تھا اور ایک روز اس کے ساتھ فرار ہو گئی تھی۔ ایک ماہ بعد وہی شخص اسے گھر واپس چھوڑ گیا، مگر باپ نے اسے ’بے عزتی‘ سمجھتے ہوئے اسی رات بیٹی کو پھندہ دے کر قتل کر دیا۔
واقعے کے پانچ روز بعد پولیس نے ملزم ریاض کو گرفتار کر لیا۔ مقتولہ کی والدہ کا 164 کا بیان عدالت میں ریکارڈ کر لیا گیا ہے جس میں قتل کی تمام تفصیلات شامل ہیں۔ پولیس نے عدالت سے قبرکشائی کی اجازت بھی طلب کر لی ہے تاکہ سائنسی شواہد کی روشنی میں تفتیش کو مزید مستحکم کیا جا سکے۔
ایس ایچ او بہرہ مند شاہ کا کہنا ہے کہ "ملزم یہ سمجھ رہا تھا کہ خاموشی سے دفنا کر حقیقت چھپا لے گا، مگر جرم خواہ کتنا بھی گہرا ہو، سچ زمین سے بھی نکل آتا ہے۔”
پولیس نے ملزم کے خلاف قتل کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج کر کے مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
دوسری جانب خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے ادارے اس واقعے کو پاکستان میں جاری غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے رجحان کی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق سال 2024 میں غیرت کے نام پر کم از کم 392 خواتین قتل ہوئیں جبکہ ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 547 تک جا پہنچی۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے صرف 0.5 فیصد مقدمات میں مجرموں کو سزائیں مل سکیں۔