بلاگزعوام کی آواز

بے آواز ہیرو، بے لوث خدمت: سوات کا رضاکار ہلال خان

حمیرا علیم

پاکستان کی حکومت اور اس کے اداروں کی نااہلی ہر موقعے پر عیاں ہوتی رہتی ہے، خصوصا جب عوام کے جان و مال کے تحفظ کا معاملہ ہو۔ لیکن پاکستانی عوام میں ایسے ایسے لعل چھپے ہیں جو گمنام ہیروز ہیں۔جنہیں شہرت اور اجر کی چاہ نہیں۔ وہ لوگوں کی خدمت فرض سمجھ کر بنا کسی لالچ کے کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہیرو بلال خان ہیں۔ کیمروں، خبروں، اور انعامات سے دور، انسانیت کی خدمت میں دن رات مصروف ہلال خان۔ ایک عام انسان جو غیر معمولی جذبے، بہادری اور انسان دوستی کا علمبردار ہے۔

ہلال خان کا تعلق سوات کے ایک چھوٹے سے گاؤں علیگرامہ سے ہے۔ یہ گاؤں وادی سوات کے دیگر علاقوں کی طرح خوبصورتی سے بھرپور ہے مگر وسائل اور سہولیات کی کمی یہاں کے باسیوں کی زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے۔ ہلال ایک عام متوسط طبقے کا فرد ہے نہ کسی حکومتی ادارے سے وابستہ، نہ کسی این جی او کا ملازم۔ وہ تعلیم یافتہ ہے مگر اس کا اصل ہنر اس کا دل ہےجو انسانیت کے لیے بے پناہ محبت اور درد سے بھرا ہوا ہے۔

دریائے سوات وادی کی روح مگر خطرناک دریا ہے۔جس میں ہر سال درجنوں افراد جاں کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اکثر حکومتی اداروں، ریسکیو ٹیمز کی تاخیر یا وسائل کی کمی کے باعث بروقت امداد نہیں پہنچتی اور لوگ دریابرد ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں لوگ بلال خان کو پکارتے ہیں۔ بلال خان گذشتہ کئی سالوں سے ڈوبنے والوں کی لاشیں دریا سے نکال رہے ہیں۔ بعض اوقات یہ مشن کئی گھنٹوں یا دنوں پر محیط ہوتا ہے۔ یہ مشن نہ صرف جسمانی طور پر تھکا دینے والا ہے بلکہ نفسیاتی طور پر بھی تکلیف دہ ہے۔ مگر بلال خان ہمت کا پیکر بنے اپنا فرض پوری ایمانداری سے نبھاتے ہیں۔

وہ اپنی ذاتی کشتی، محدود وسائل اور اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ کام انجام دیتے ہیں۔ ان کی کشتی کوئی جدید یا پر آسائش بوٹ نہیں بلکہ لکڑی کی عام سی کشتی ہے۔ نہ ہی ان کے پاس جدید سیکیورٹی گیئر یا غوطہ خور آلات ہیں۔ مگر ان کا حوصلہ، تجربہ اور نیت، اُنہیں کامیاب بناتی ہے۔ انہوں نے درجنوں لوگوں کی لاشیں واپس ان کے پیاروں تک پہنچائی ہیں۔ وہ اکثر اپنی جیب سے پٹرول، رسے، آلات اور دیگر ضروری اشیاء خریدتے ہیں تاکہ اپنا مشن جاری رکھ سکیں۔

2022 میں جب سوات میں سیلاب آیا تو سینکڑوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ لوگ اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہے تھے۔ لیکن بلال خان کو اس وقت بھی دوسروں کو بچانے کی فکر تھی۔ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سیلاب زدگان کی مدد میں مصروف اپنی کمزور سی کشتی پر سوار ہو کر اُن علاقوں میں جاتے رہے جہاں کوئی اور جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے کئی خواتین، بچوں اور بزرگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچایا۔

ہلال خان کی خدمات صرف لاشیں نکالنے یا سیلاب زدگان تک محدود نہیں۔ جب بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے چاہے وہ گاڑی کے دریا میں گرنے کا واقعہ ہو یا سیر و تفریح کے دوران پیش آنے والا کوئی المیہ۔ لوگ فوراً انہیں یاد کرتے ہیں۔
وہ مقامی نوجوانوں کو تربیت بھی دیتے ہیں۔ تاکہ مزید لوگ اس نیک کام میں ان کے مددگار بن سکیں۔ ان کے تربیت یافتہ کئی رضاکار ہنگامی حالات میں ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

ہلال خان کو آج تک نہ کوئی سرکاری تمغہ ملا ہے، نہ کسی ٹی وی چینل پر نمایاں کوریج۔ ان کا نام سوشل میڈیا پر بھی کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ مگر لوگوں کے دل میں ان کی جو عزت ہے اور جو دعائیں انہیں ملتی ہیں وہ کسی تمغے یا ایوارڈ سے کہیں بڑھ کر ہے۔

جب وہ کسی ماں کا بیٹا، کسی بیوی کا شوہر، کسی بچے کا باپ واپس لاتے ہیں ۔ چاہے وہ زندہ ہو یا لاش کی صورت میں تو انہیں جو دعائیں ملتی ہیں وہی ان کا اجر ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہلال خان ان لوگوں کی دعاؤں میں ہمیشہ رہیں گے جن کے پیاروں کی آخری رسومات وہ ممکن بناتے ہیں ۔

ہلال خان جیسے افراد اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو خالصتاً انسانیت کے لیے جیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ایسے ہیروز کو کوئی سراہتا ہی نہیں۔ حکومت، میڈیا، اور سول سوسائٹی کو  انہیں وسائل، تحفظ، تربیت اور حوصلہ افزائی فراہم کرنا چاہیئے۔ تاکہ ان کے مشن کو وسعت مل سکے۔

ہمارے ہاں کھلاڑیوں کو تو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کر کے اچھے سیلری پیکجز دیئے جاتے ہیں۔ لیکن ہلال خان جیسے ہیروز کو نہ کوئی نوکری دی جاتی ہے نہ ہی کوئی معاوضہ۔حکومت کو چاہیئے کہ ان جیسے تمام بے لوث رضاکاروں کو نوکریاں فراہم کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ان کو ایسے آلات ضرور مہیا کرے جو ان کے کام میں معاون ثابت ہوں۔

اگرچہ ہلال خان خود سادگی پسند اور شہرت سے بے نیاز ہے مگر ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے کرداروں کی کہانیاں سوشل میڈیا کے ذریعے عام کریں۔ اگر ہم فلمی ہیروز، انفلوئنسرز یا مشہور شخصیات کے لیے لاکھوں فالوورز بنا سکتے ہیں تو کیا ہلال خان جیسے حقیقی ہیروز کو اجاگر کرنا ہماری ذمہ داری نہیں؟

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button