بلاگزعوام کی آواز

سانحہ سوات: ریاست کی غفلت یا عوام کی بیوقوفی؟

ایزل خان

سوات، جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے، ہر سال ہزاروں سیاح مختلف شہروں اور علاقوں سے سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ فیمیلیز، دوستوں کے ساتھ یہاں آ کر قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اور خبریں گردش کر رہی ہیں جنہوں نے دل دہلا دیا۔

دریائے سوات نے اپنی بے رحم موجوں میں کئی قیمتی جانیں بہا دیں۔ گویا قیامت برپا ہو گئی ہو۔ مقامی لوگوں کے مطابق، زیادہ تر متاثرین سیاح تھے جو قدرتی مناظر سے محظوظ ہونے آئے تھے، مگر وہ ان مناظر کے پیچھے چھپے خطرات سے ناواقف تھے۔

بتایا گیا ہے کہ ان متاثرین میں ایک ہی خاندان کے اٹھارہ افراد شامل تھے، جو سیالکوٹ سے سیر کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو دریا میں بہتے دیکھا، چیخ و پکار کرتے رہے، مگر ریاستی مشینری خاموش تماشائی بنی رہی۔

ایک ویڈیو کلپ میں مقامی شخص بتا رہا تھا کہ اس نے صبح آٹھ بجے ریسکیو کو کال کی، ٹیم آئی مگر صرف تماشہ دیکھ کر واپس چلی گئی۔ پورا دن گزر گیا، کوئی بھی متاثرین کی مدد کو نہ پہنچا۔

سوال یہ ہے کہ اگر آپ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتے تو پھر تنخواہیں کیوں لیتے ہیں؟ وہ خاندان تقریباً ایک گھنٹہ مسلسل مدد کی دہائی دیتا رہا، مگر کوئی مدد کو نہ آیا۔

یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں:

کیا ریاست کا کام صرف لاشیں گننے تک محدود رہ گیا ہے؟

کیا ہر بار غفلت اور بے حسی پر افسوس کر کے سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے؟

کیا ضلعی انتظامیہ، جو عوامی کے لئے منتخب ہو کر عہدوں پر براجمان ہے، واقعی عوامی خدمت کر رہی ہے؟

میرے نزدیک افسوس سے پہلے اقدامات ضروری ہیں، کیونکہ افسوس سے جانیں واپس نہیں آتیں۔ ضلعی انتظامیہ کو چاہیئے تھا کہ بروقت ریسکیو ٹیمیں اور ہیلی کاپٹرز بھیجے جاتے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اگر شروع میں ہی کارروائی ہوتی تو تمام جانیں بچ سکتی تھیں۔ مگر نہ بروقت امداد پہنچی، نہ ریاست نے انسانی جانوں کے تحفظ میں سنجیدگی دکھائی۔

یہاں ایک اور سوال اٹھتا ہے: کیا یہ سانحہ صرف ریاست کی غفلت کا نتیجہ تھا یا عوام کی لاپرواہی بھی شامل ہے؟ جواب یہی ہے کہ دونوں قصوروار ہیں۔ جب ہمیں خبردار کیا جاتا ہے کہ فلاں مقام خطرناک ہے، تو ہم جواب دیتے ہیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ رویہ خطرناک ہے۔ قدرت کے آگے ضد کرنا بے وقوفی ہے۔

دوسری طرف، کچھ لوگ سوشل میڈیا پر مسلسل ریاست کو ظالم اور عوام کو مظلوم دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ اگر ریاست نے وارننگ جاری کی ہے اور بورڈز پر ہدایات دی گئی ہیں، تو ہم ان کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہیں؟ اگر لکھا ہے کہ یہاں جانا منع ہے، تو ہم وہاں کیوں جاتے ہیں؟ اگر ریاست نے خبردار کیا، اور ہم نے نہ مانا، تو پھر نقصان بھی ہمارا ہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہری اور سماجی کارکن آگے آئے، سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو محتاط رہنے کا پیغام دے۔ سوات، کالام، فضاگٹ سمیت کئی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال خطرناک ہے، لہٰذا سیر کے لیے جانے سے گریز کریں۔

یہ وقت الزام تراشی کا نہیں، بلکہ ریاست اور عوام کو مل کر کام کرنے کا ہے تاکہ باقی لاشیں محفوظ طریقے سے نکالی جا سکیں۔ جو اس دنیا سے چلے گئے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button