ماں کا چھوٹتا ہاتھ، بچی کی آخری فریاد — سانحہ سوات انسانیت کا امتحان

سیدہ قرۃ العین
سوات وہ وادی ہے جو قدرت کی خوبصورتی اور پاکستانیوں کے دل کی دھڑکن سمجھی جاتی ہے۔ مگر 27 جون 2025 کا دن اس وادی کے لیے ایک ایسا زخم چھوڑ گیا جو برسوں تک نہ بھر سکے گا۔ ایک طرف بہتے پانی کا سکون، سبز پہاڑوں کی خاموشی، نیلا آسمان اور دوسری طرف وہ لمحہ جب خوشیوں بھرا دن قیامت میں بدل گیا۔ یہ صرف ایک حادثہ نہیں انسانیت کی ایک کڑی آزمائش تھی۔
اس دن پری مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں سوات دریا میں طغیانی آ گئی پانی کی سطح چند لمحوں میں اس قدر بلند ہو گئی کہ مینگورہ، فضاگھاٹ، اور بائی پاس روڈ پر موجود سیاح اور مقامی لوگ سنبھل نہ سکے جن لمحوں میں لوگ دریا کنارے تصاویر بنا رہے تھے کھانا کھا رہے تھے یا بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے انہی لمحوں میں دریا نے اپنا رنگ بدلا اور سب کچھ بہا لے گیا۔
ایک 18 افراد پر مشتمل خاندان جو صرف خوشی کی تلاش میں سوات آیا تھا دریا کی بے رحم لہروں کی نظر ہو گیا ان میں سے 8 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں 3 کو زندہ بچایا گیا اور 7 افراد تاحال لاپتہ ہیں ان لاپتہ افراد کی تلاش اب بھی جاری ہے ماں کے ہاتھ سے بچہ چھوٹا تو ایک لمحے میں دو جانیں چلی گئیں، ایک بچی جو اپنی نانی کے ساتھ آئی تھی، آخری بار چٹان پر کھڑے مدد کو پکار رہی تھی، وہ آواز جو سوشل میڈیا پر گونج رہی ہے مگر پانی میں دب چکی ہے۔
اس سانحے کے بعد مقامی اور قومی ادارے حرکت میں آ گئے۔ ریسکیو 1122، فوج، سول ڈیفنس اور دیگر محکمے تقریباً 120 اہلکاروں کے ساتھ پانچ سے آٹھ مختلف مقامات پر آپریشن میں مصروف رہے۔ ہیلی کاپٹرز نے دریا کے درمیان پھنسی جانوں کو بچانے کے لیے پرخطر مشن انجام دیئے۔ غوطہ خوروں نے سخت بہاؤ کے باوجود لاشیں نکالنے اور لوگوں کو ڈھونڈنے کی کوشش جاری رکھی۔ اب تک 58 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جا چکا ہے مگر جو چلے گئے ان کی واپسی ممکن نہیں۔
قدرت کے اس قہر کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کر دی پی ڈی ایم اے کا ایمرجنسی آپریشن سنٹر چوبیس گھنٹے فعال کر دیا گیا ہے اور عوام کسی بھی شکایت یا مدد کے لیے ٹول فری نمبر 1700 پر رابطہ کر سکتے ہیں سوات کے ندی نالوں، دریا اور پہاڑی علاقوں کے اطراف دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے تاکہ مزید انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔
یہ واقعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ قدرت اب خاموش نہیں گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا غیر متوقع بارشیں اور دریا کی طغیانی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اشارے ہیں۔ سائنسدان اور ماہرین برسوں سے ہمیں خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے قدرت کے ساتھ کھیلنا نہ چھوڑا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم روز ایسی قیامتوں کا سامنا کریں گے۔
سوات جیسے علاقے جو خوشیوں کی علامت ہوتے تھے اب خطرے کی گھنٹی بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دل دہلا دینے والے مناظر دیکھنے کو ملے، ایک ویڈیو میں ایک نوجوان لڑکی دریا کے بیچ چٹان پر کھڑی فریاد کرتی نظر آتی ہے اور دوسری طرف ایک ماں نے اپنے بچوں کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے، جیسے وہ چاہتی ہو کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ الگ نہ ہوں کچھ لوگ قرآن کو سینے سے لگا کر اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ وہ لمحے نہ صرف آنکھیں نم کرتے ہیں، بلکہ دل کو زخمی کر جاتے ہیں۔
یہ سانحہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم کب سیکھیں گے کب ہم قدرتی مقامات پر حفاظتی اقدامات کو سنجیدہ لیں گے کب ہم صرف تفریح کے لیے نہیں، ذمہ داری کے ساتھ گھومنے جائیں گے یہ صرف حکومت کی نہیں، ہر شہری کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی حفاظت کے لیے قدم اٹھائے۔
اب وقت ہے کہ ہم صرف افسوس نہ کریں بلکہ عمل کریں ان متاثرہ خاندانوں کی مالی جذباتی اور اخلاقی مدد کریں الخدمت فاؤنڈیشن، سوات ریلیف انیشییٹو، اور ریڈ کریسنٹ جیسے ادارے میدان میں ہیں اور ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیئے۔ آپ کی ایک چھوٹی سی مدد کسی بچے کے علاج، کسی بیوہ کی کفالت، یا کسی خاندان کی نئی زندگی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
یہ حادثہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ زندگی بہت نازک ہے۔ لمحوں میں سب کچھ بدل سکتا ہے۔ قدرت کے سامنے ہمارا غرور، ترقی، اور ٹیکنالوجی سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ جو چلے گئے ان کے لیے دعا، اور جو باقی ہیں ان کے لیے تحفظ ہمارا فرض ہونا چاہیے۔
آئیں دعا کریں کہ جو لوگ لاپتہ ہیں وہ محفوظ مل جائیں۔ جو زخم کھا چکے ہیں وہ شفا پائیں۔ جو ٹوٹ چکے ہیں وہ جڑ جائیں۔ اور ہم سب عہد کریں کہ آئندہ قدرت کے ساتھ لڑنے کے بجائے اس کا احترام کریں گے۔
یہ وقت صرف خبر پڑھنے کا نہیں، انسان بننے کا ہے۔