صحتعوام کی آواز

ڈبلیو ایچ او اور بے نظیر پروگرام کے اشتراک سے پاکستان میں سالانہ 43 ہزار بچوں کا علاج

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور پاکستان کا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) ہر سال ملک بھر میں شدید غذائی قلت اور طبی پیچیدگیوں کا شکار دو سال سے کم عمر کے 43 ہزار بچوں کا علاج کرتے ہیں۔ اس شراکت داری کو مزید وسعت دینے کے لیے دونوں اداروں کے درمیان اسلام آباد میں ملاقات ہوئی، جس میں بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن سینیٹر روبینہ خالد اور پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے ڈاکٹر ڈاپینگ لو نے وفاقی حکومت کے پالی کلینک اسپتال کے نیوٹریشن اسٹیبلائزیشن سینٹر کا دورہ بھی کیا۔

سینیٹر روبینہ خالد نے اس موقع پر کہا، "میں عالمی ادارہ صحت کی شراکت داری پر شکر گزار ہوں۔ بی آئی ایس پی پورے ملک میں کام کر رہا ہے اور ہم ڈبلیو ایچ او کی مدد سے زیادہ سے زیادہ مستحق خاندانوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ کوئی ماں یا بچہ پیچھے نہ رہ جائے۔ یہ صرف جسمانی نشوونما کا نہیں، ذہنی نشوونما کا بھی مسئلہ ہے، اور ہم سب کو مل کر بروقت اقدامات کرنا ہوں گے۔ صحت مند مائیں اور بچے ہی ایک خوشحال پاکستان کی بنیاد ہیں۔”

بینظیر نشوونما پروگرام کے تحت اب تک ڈبلیو ایچ او کے تعاون سے قائم مراکز نے 2022 سے اب تک 46 ہزار بچوں کا علاج کیا ہے اور 64 ہزار ماؤں اور بچوں کی نگہداشت کرنے والوں کو مشاورت فراہم کی ہے۔ 2025 میں یہ تعاون 199 مراکز تک بڑھایا جائے گا، جن میں سے 169 مراکز کو بی آئی ایس پی فنڈ کرے گا۔ ان مراکز میں ہر سال 80 ہزار کے قریب پانچ سال سے کم عمر بچوں کا علاج اور 1 لاکھ 20 ہزار ماؤں اور نگرانوں کو مشاورت فراہم کی جائے گی۔

ڈاکٹر ڈاپینگ لو نے کہا، "اسٹیبلائزیشن سینٹرز میں 98 فیصد علاج کا کامیاب تناسب بین الاقوامی معیار سے کہیں بہتر ہے، لیکن غذائی قلت سے ایک بچے کی بھی موت ناقابل قبول ہے۔ ہم ہر بچے تک پہنچنے، اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بی آئی ایس پی کے ساتھ اپنی شراکت کو جاری اور وسعت دینے کے لیے پرعزم ہیں۔”

ڈبلیو ایچ او پاکستان میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، طبی اداروں اور اقوامِ متحدہ کے دیگر اداروں جیسے عالمی خوراک پروگرام (WFP) اور یونیسیف کے ساتھ قریبی تعاون میں کام کر رہا ہے۔ WFP بچوں میں غذائی قلت کی ابتدائی شناخت اور روک تھام کے لیے کام کرتا ہے اور اگر بچہ شدید حالت میں ہو تو اسے ڈبلیو ایچ او کے مراکز یا ہلکی حالت میں ہو تو یونیسیف کے آؤٹ پیشنٹ مراکز میں بھیجتا ہے۔ اس کے علاوہ خاندان خود بھی اپنے بچے کو ایمرجنسی یا قریبی نیوٹریشن سینٹر لے آتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی مدد میں تکنیکی رہنمائی، عملہ، طبی سامان، بنیادی ڈھانچے کی فراہمی اور مشاورت شامل ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جہاں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی نصف سے زائد آبادی یا تو اسٹنٹنگ (قد کی کمی) یا ویسٹنگ (وزن کی کمی) یا دونوں کا شکار ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اسٹنٹنگ کی شرح 40 فیصد (یعنی 1 کروڑ بچے) اور ویسٹنگ کی شرح 17.7 فیصد (یعنی 50 لاکھ بچے) ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو اس کے نتائج پاکستان کی پائیدار ترقی کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی غذائی قلت نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہی ہے بلکہ سالانہ 17 ارب امریکی ڈالر (ملکی مجموعی آمدنی کا 6.4 فیصد) کا معاشی نقصان بھی ہو رہا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button