لنڈی کوتل: 23 گرلز پرائمری سکول بند، تدریسی عملہ نہ ہونے سے طالبات کا مستقبل تاریک

محراب شاہ آفریدی
ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں لڑکیوں کی تعلیم شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے، جہاں 23 سرکاری گرلز پرائمری سکول صرف اس بنا پر بند پڑے ہیں کہ ان میں پڑھانے کے لیے کوئی استانی موجود نہیں۔ متعدد سکولوں کے دروازوں پر تالے پڑے ہیں جبکہ طالبات روز سکول آ کر مایوسی کے ساتھ واپس چلی جاتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق، بند شدہ سکولوں میں 8 لوئے شلمان، 6 کم شلمان، 5 لنڈی کوتل اور 4 بازار زخہ خیل کے علاقوں میں واقع ہیں۔ سکولوں کے دروازوں پر تالے پڑے ہیں اور بچیاں روزانہ سکول آ کر مایوسی کے عالم میں واپس لوٹ جاتی ہیں۔
اسسٹنٹ سب ڈویژنل آفیسر (ASDO) تعلیم لنڈی کوتل کے مطابق، بیشتر سکولوں میں تعینات خواتین اساتذہ دوسرے اضلاع سے تعلق رکھتی ہیں اور ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتیں، جبکہ مقامی خواتین اساتذہ کی تعداد بھی انتہائی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کو تجویز دی گئی ہے کہ ایٹا ٹیسٹ میں قبائلی اضلاع کے امیدواروں کے لیے نرمی برتی جائے تاکہ مقامی اہل خواتین کی بھرتی ممکن بنائی جا سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں پی ٹی سی فنڈ کے تحت عارضی بنیادوں پر مقامی خواتین کو بھرتی کیا جاتا تھا، مگر اب یہ فنڈ بند ہو چکا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ منتخب نمائندے اس مسئلے کو اسمبلی میں اٹھائیں اور وزیر تعلیم سے استدعا کریں کہ لنڈی کوتل میں نہ صرف خواتین اساتذہ کو سہولیات دی جائیں بلکہ میٹرک پاس مقامی خواتین کو رضاکارانہ طور پر تدریس کی اجازت دی جائے۔
اس صورتحال پر والدین میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ کئی والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بچیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بےتاب ہیں، لیکن اسکول بند ہونے سے ان کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول پسید خیل کی طالبہ ملالی، جو ڈاکٹر بننے کا خواب رکھتی ہے، کا کہنا ہے: "میرے خواب بڑے ہیں، لیکن سکول میں کوئی استانی نہیں۔ روز کتابیں لے کر آتی ہوں، مگر دروازہ بند ہوتا ہے۔ لگتا ہے جیسے میرا خواب بھی بند ہو چکا ہے۔”
تعلیمی ماہرین اور سماجی حلقوں نے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مسئلے کا جلد از جلد حل نہ نکالا گیا تو لنڈی کوتل کی بچیاں صرف تعلیم سے ہی نہیں بلکہ روشن مستقبل سے بھی محروم ہو جائیں گی۔