بلاگزعوام کی آواز

صرف بندوقیں نہیں، دماغ بھی تباہ ہو رہے ہیں، اصل جنگ یہی ہے!

رعناز

بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا ایک طویل پس منظر ہے، جو تقسیمِ ہند سے لے کر اب تک جاری ہے۔ ہر چند سال بعد سرحدی جھڑپیں، سفارتی محاذ آرائیاں اور میڈیا میں بڑھتی ہوئی جنگی فضا عوام کو ایک ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ یہ آگ ایک دفعہ پر سے بھڑک اٹھی تھی۔ جب بھی ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کے امکانات سر ابھارے تو سب سے زیادہ متاثر عام لوگ ہوتے ہیں، خاص طور پر پاکستان میں۔ خواہ وہ مالی لحاظ سے ہو یا نفسیاتی طور پر۔ لیکن آج اس بلاگ میں ہم نفسیاتی طور پر ہونے والے نقصان کے بارے میں بات کرینگے۔

پاکستانی اور بھارتی عوام، دونوں ممالک کی نوجوان نسل، خاص کر پاکستانی ایک مسلسل غیر یقینی صورت حال میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جنگ کے خطرات جہاں ملکی سلامتی پر سوالات اٹھاتے ہیں، وہیں یہ ذہنی دباؤ، بے چینی اور ڈپریشن جیسے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔

جب کسی قوم کو یہ احساس ہو کہ جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے، تو روزمرہ زندگی میں ایک عجیب خوف طاری رہتا ہے۔ اسکول جانے والے بچے، دفاتر میں کام کرنے والے افراد، اور گھریلو خواتین – سب ہی کسی نہ کسی طور اس دباؤ کو محسوس کرتے ہیں۔ انہیں ایک خدشہ سا ہمیشہ لگا ہوتا ہے۔

الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اکثر ایسے مواقع پر جذباتی انداز اپناتے ہیں جو خوف اور نفرت کو ہوا دیتا ہے۔ جذباتی خبریں، جنگی گیت، اور دشمن ملک کی منفی تصویر کشی لوگوں میں غصہ، تشویش اور عدم تحفظ کا احساس بڑھا دیتی ہیں۔

اسی طرح جنگی حالات میں معیشت کمزور ہوتی ہے، مہنگائی بڑھتی ہے، کاروبار سست پڑ جاتے ہیں۔ یہ صورت حال عوام کو نہ صرف مالی بلکہ نفسیاتی طور پر بھی کمزور کر دیتی ہے۔

تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوجوان اگر مسلسل ایسی خبریں سنیں گے کہ جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے، تو ان کے خواب، اہداف اور مستقبل کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔ کئی نوجوان اپنا ملک چھوڑنے یا مستقبل کے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ فیصلے لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ایک مکمل جنگ کا مطلب ہے کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ اور ترقیاتی منصوبوں کی قربانی۔ صحت، تعلیم، روزگار جیسے شعبے متاثر ہوں گے، جو عوام کی زندگیوں میں مزید بے چینی لائیں گے۔

جب لوگ مسلسل خطرے، غیر یقینی اور دشمنی کی فضا میں سانس لیتے ہیں تو اُن کے ذہن میں ایک مستقل کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ عام شہریوں کے لیے معمول کی زندگی بسر کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت کسی بڑے حادثے یا تباہی کے انتظار میں رہتے ہیں۔ یہ دباؤ رفتہ رفتہ ان کی شخصیت، تعلقات اور کام کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالنے لگتا ہے۔ کچھ افراد خود کو دوسروں سے الگ کر لیتے ہیں، کچھ میں غصہ اور جارحیت بڑھ جاتی ہے، اور کچھ ایسے خیالات میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو ذہنی بیماریوں کو جنم دیتے ہیں۔

اس بارے میں ایک فیمیل  ماہر نفسیات خدیجہ  سے بات کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ جب دو ایٹمی طاقتیں، بھارت اور پاکستان، کسی تنازع یا کشیدگی کی فضا میں آتی ہیں تو میدانِ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں لگتا، بلکہ یہ عام انسانوں کے ذہنوں میں بھی برپا ہوتا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا، اور سیاسی بیانات کی گونج انسان کے شعور و لاشعور میں خوف، غصہ، اور اضطراب پیدا کر دیتی ہے۔

جنگ کی فضا میں لوگ مسلسل خطرے کے احساس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، خاص طور پر وہ جو سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں یا جن کے عزیز فوج میں خدمات انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی ایک انجانے خوف کے زیرِ اثر آ جاتی ہے۔ نیند کی کمی، چڑچڑاپن، مایوسی، اور بے بسی کے احساسات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ علامات دراصل "پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر” (PTSD) یا "جنرلائزڈ اینزائٹی ڈس آرڈر” جیسی نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

خصوصاً نوجوان نسل، جو سوشل میڈیا پر ہر لمحہ جنگی خبریں اور ویڈیوز دیکھتی ہے، ایک نفسیاتی جنگ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایک طرف قوم پرستی کا جذبہ، اور دوسری طرف موت و تباہی کا خوف — یہ کشمکش ذہنی سکون کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔

ڈاکٹر خدیجہ کا مزید کہنا  تھا کہ جنگ صرف بارود کا کھیل نہیں، یہ ذہنوں پر حملہ کرتی ہے۔ اگر ہم نے اپنی عوام، خاص طور پر نوجوانوں کو نفسیاتی مدد نہ دی، تو ہم ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو بظاہر زندہ، مگر اندر سے ٹوٹ چکی ہو گی۔ امن صرف سیاسی نعرہ نہیں، یہ ذہنی سکون کی واحد امید بھی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگی نعروں سے زیادہ امن کی بات کی جائے۔ حکومت، میڈیا، تعلیمی ادارے اور علماء کو چاہیے کہ وہ عوام کو نفسیاتی طور پر مضبوط بنانے کے لیے کردار ادا کریں۔ سوشل میڈیا پر بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے، اور عوام کو حقائق پر مبنی معلومات دی جائیں نہ کہ جذباتی بیانات۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ نہ صرف سیاسی یا عسکری مسئلہ ہے بلکہ یہ ایک انسانی المیہ بھی بن سکتی ہے۔ پاکستانی عوام، جو پہلے ہی بے شمار چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، اس طرح کی کشیدگی سے نفسیاتی طور پر شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو جنگ کے بجائے امن، استحکام اور ترقی کی طرف لے جائیں۔

Show More

Raynaz

رعناز ایک ڈیجیٹل رپورٹر اور بلاگر ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button