نیا تعلیمی سال اور خالی بیگ: تعلیم پر حکومتی ترجیحات پر سوالیہ نشان

رانی عندلیب
جب کسی قوم کی ترقی تعلیم سے مشروط ہو تو حکومتی پالیسیوں کا محور درسی کتب اور تدریسی وسائل ہونے چاہئیں۔ مگر بدقسمتی سے تعلیمی سال 2025-26 کا آغاز خیبر پختونخوا میں ایسے حالات میں ہوا ہے جہاں سرکاری سکولوں میں کتابوں کی کمی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے ہر سال مفت درسی کتب دینے کا اعلان تو کیا جاتا ہے، مگر عملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔
پچھلے سال حکومت نے 80 فیصد کتابیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن بیشتر سکولوں کو بمشکل 50 فیصد کتابیں ہی مل سکیں۔ اس سال معاملہ اور بھی بگڑ گیا ہے۔ سرکاری دعوے کے مطابق 25 فیصد کتابیں دی جانی تھیں، لیکن حقیقت میں بعض اسکولوں کو صرف 5 فیصد کتب ہی مہیا کی گئی ہیں، جس کے باعث تعلیمی سال کا پہلا مہینہ تقریباً ضائع ہو چکا ہے۔
اساتذہ اور والدین کا کہنا ہے کہ بغیر کتاب کے تعلیمی عمل بے معنی ہو جاتا ہے۔ حکومت نے بچوں کو مفت بیگز فراہم کرنے کا اعلان تو کر دیا، لیکن جب بیگ میں رکھنے کو کچھ نہ ہو تو ایسی سہولت نمائشی اقدام کے سوا کچھ نہیں۔ اساتذہ کی رائے ہے کہ محدود بجٹ میں ترجیح کتابوں کو دی جائے، بیگز اور یونیفارمز بعد میں بھی دیے جا سکتے ہیں۔
کچھ اسکولوں میں اسٹارٹ اپ کٹس کی تقسیم ہو چکی ہے جبکہ بیشتر اب بھی محروم ہیں۔ طلبہ اور اساتذہ دونوں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ بغیر نصابی مواد کے اساتذہ کی تدریس اور طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیت دونوں متاثر ہو رہی ہیں۔
والدین کا کہنا ہے کہ حکومت کی ناقص حکمت عملی بچوں کے سکول داخلوں پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔ جب کتابیں بروقت نہیں ملتیں تو والدین سرکاری کے بجائے نجی اسکولوں کا رخ کرتے ہیں یا بچوں کو سکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔
اساتذہ نے حکومت کو چند سفارشات بھی دی ہیں:
- درسی کتب کی بروقت اور مکمل فراہمی کو ترجیح دی جائے۔
- کتابوں کی تقسیم میں اسکول پرنسپلز اور اساتذہ کو شامل کیا جائے۔
- والدین کو سہولیات کی فراہمی سے متعلق باقاعدگی سے آگاہ کیا جائے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم بیگ سے نہیں، کتاب سے مضبوط ہوتی ہے۔ حکومت اگر بچوں کے مستقبل سے واقعی مخلص ہے تو کتاب کو محض وعدہ نہیں بلکہ عملی ترجیح بنانا ہوگا۔ کیونکہ علم خالی بیگ میں نہیں، بھری کتاب میں ہوتا ہے۔