کیا پختون معاشرہ واقعی عورت کی عزت کا محافظ ہے؟
پختون معاشرہ: عورت کی عزت اور مردوں کامثبت رویہ

رعناز
جب ہم دنیا بھر کی مختلف ثقافتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو ہمیں ہر ایک ثقافت کی اپنی خوبیاں اور خامیاں دکھائی دیتی ہیں۔ مگر اگر ہم خاص طور پر پختون معاشرے کی بات کریں تو ایک ایسی خوبی جو فوراً نمایاں ہوتی ہے، وہ عورتوں کے لیے مردوں کا غیر معمولی عزت و احترام ہے۔ بہت سے مغالطے اور غلط فہمیاں پختون کلچر کے بارے میں عام ہیں، مگر جو شخص کبھی قریب سے اس تہذیب کو دیکھے گا، وہ یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پختون مرد عورت کی عزت کو اپنی غیرت کا حصہ سمجھتا ہے۔ ہمیشہ اس کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ مشاہدہ تقریباً ہر جگہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم کسی بینک، دفتر یا سرکاری ادارے میں چلے جائیں، تو دیکھیں گے کہ جب کوئی عورت لائن میں آتی ہے تو پختون مرد بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی باری اسے دے دیتا ہے۔ وہ نہ صرف خاموشی سے پیچھے ہو جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات عورت کو احترام سے کہتا بھی ہے کہ "باجی، آپ پہلے جائیں”۔ اس میں نہ تو کوئی مجبوری ہوتی ہے، نہ دکھاوا، بلکہ یہ خالصتاً تہذیب، تربیت اور غیرت کا اظہار ہوتا ہے،جو کہ نہایت ہی اچھی اور بڑی بات ہے۔
ٹرانسپورٹ کے نظام میں بھی یہ خوبصورتی دیکھنے کو ملتی ہے۔ چاہے وہ بس ہو، ویگن ہو یا رکشہ، اگر کوئی عورت کھڑی ہو اور مرد پہلے سے بیٹھا ہو، تو وہ فوراً اپنی جگہ خالی کر کے اسے پیش کرتا ہے۔ خاص طور پر بزرگ خواتین کے لیے احترام کا عالم یہ ہوتا ہے کہ نوجوان لڑکے نہ صرف سیٹ دیتے ہیں بلکہ ہاتھ سے سہارا دے کر انہیں بٹھاتے ہیں۔
عوامی مقامات جیسے بازاروں، ہسپتالوں اور پارکوں میں بھی پختون مرد کوشش کرتا ہے کہ عورت کے لیے الگ راستہ یا جگہ بنائی جائے۔ اکثر اوقات مرد خود ہٹ کر راستہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ خواتین بے جھجک گزر سکیں۔ اگر کسی خاتون کے ہاتھ سے سامان گر جائے تو مرد آگے بڑھ کر اسے اٹھا کر دیتے ہیں، بغیر کسی بدنظری یا بدتہذیبی کے۔
پختون علاقوں میں یہ بھی عام ہے کہ اگر کوئی مرد کسی خاتون کو سڑک کنارے کھڑا دیکھے، خاص طور پر اگر وہ اکیلی ہو یا بچے کے ساتھ ہو، تو وہ خود بخود رک کر مدد کی پیشکش کرتا ہے۔ مثلاً لفٹ دینا، سامان اٹھانا یا متعلقہ جگہ تک پہنچانا۔ یہ سب کچھ اس نیت سے کیا جاتا ہے کہ عورت کو تکلیف نہ ہو۔
پختون مرد نجی محفلوں میں بھی خواتین کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ مثلاً جب کسی شادی یا خوشی کی تقریب میں خواتین آتی ہیں، تو مرد ان کے لیے الگ، صاف اور باعزت جگہ کا انتظام کرتے ہیں۔ اکثر اوقات مرد خود ان محفلوں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تاکہ عورتیں آزادانہ ماحول میں شریک ہو سکیں۔
گھروں کے اندر ماں کی عزت تو ویسے ہی ہر جگہ مسلمہ ہے، مگر پختون گھرانوں میں بہن کو بھی خصوصی مقام حاصل ہوتا ہے۔ بھائی بہن کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، اسے تعلیم، کپڑے، تحفظ اور محبت سب کچھ بغیر مانگے دیتے ہیں۔ بیوی کے ساتھ بھی وہی رویہ ہوتا ہے جو عزت دار شوہر سے توقع کی جاتی ہے۔ اس کی عزت، پردہ، آرام اور ضروریات سب کچھ اولین ترجیح ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، اگر کسی گاؤں یا محلے میں کوئی عورت کسی مسئلے یا ظلم کا شکار ہو جائے تو پورا پختون برادری اس کی پشت پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ اسے تنہا محسوس نہیں ہونے دیتے، نہ ہی کسی کو اجازت دیتے ہیں کہ عورت کی بے عزتی کرے۔ جرگہ سسٹم میں بھی عورت کے معاملے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، اور مرد اسے عزت سے سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
یہ سب رویے، عادات اور رسومات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پختون مرد عورت کو محض ایک صنف نہیں بلکہ ایک "عزت دار فرد” سمجھتا ہے، جس کی حفاظت، خدمت اور تعظیم اس کا دینی، اخلاقی اور ثقافتی فرض ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جب عورت کو عزت دی جاتی ہے، تو وہ بھی اعتماد کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ پختون علاقوں میں تعلیم یافتہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کا ثبوت ہے کہ جب عورت کو احترام اور تحفظ ملے تو وہ نہ صرف خود ترقی کرتی ہے بلکہ معاشرے کی ترقی میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم اس مثبت پہلو کو مزید اجاگر کریں اور دوسرے معاشروں کے لیے ایک مثال بنائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر پختون مردوں کو محض سخت مزاج یا دقیانوسی سوچ رکھنے والے انسان کے طور پر پیش کرنا ایک ناانصافی ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پختون مرد عزت، غیرت، وفاداری اور خلوص کا پیکر ہوتا ہے، جو عورت کو محض صنف نازک نہیں بلکہ ایک قابلِ عزت فرد سمجھتا ہے۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم پختون معاشرے کی اس مثبت رویے کو سراہیں، اس کا اعتراف کریں اور اسے پھیلائیں تاکہ دیگر معاشرے بھی عورت کے احترام کی اس عظیم روایت سے کچھ سیکھ سکیں۔ معاشرے اسی وقت خوبصورت بنتے ہیں جب وہاں کے مرد عورت کو عزت دینا سیکھیں — اور پختون مرد اس خوبی میں سرِفہرست ہیں۔