غزہ میں بھوک، پیاس، قتل عام… اور دنیا بے حس تماشائی

حمیرا علیم
فلسطین اسرائیل تنازعہ سو سال پرانا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نہ صرف ہم نے فلسطینی بھائیوں کو تنہا چھوڑ دیا ہے بلکہ ان کے نام پر دنیا بھر میں انفرادی اور اجتماعی طور پر این جی اوز اور لوگ امداد اکھٹی کر رہے ہیں۔ لوگ پیسے، اشیائے خوردونوش، کپڑے، جوتے، ٹینٹس، کمبل اور ہر طرح کی چیزیں ان سب امدادی تنظیموں کو دے رہے ہیں۔جن کا دعوی ہے کہ وہ یہ اشیاء غزہ میں پہنچا رہے ہیں۔ اسرائیل نے فضائی، بری، بحری سب راستے بند کر رکھے ہیں رفح کراسنگ جو مصر اور غزہ کے درمیان واحد فعال زمینی راستہ ہے۔
اسے بھی اسرائیلی دباؤ کی وجہ سے محدود یا بند رکھا جاتا ہے۔ وہاں روزانہ سینکڑوں امدادی ٹرک، خوراک، پانی، طبی سازوسامان اور ایندھن لے کر کھڑے رہتے ہیں۔ مگر اجازت کے بغیر وہ اندر نہیں جا سکتے۔ اسرائیلی قابض فوج اس سامان کی تلاشی کے لیے مہینوں ٹرکس کھڑے رکھتی ہے۔ اور سیکورٹی خدشات کے نام پر غزہ میں جانے نہیں دیتی۔ بفرض محال ایک آدھ ٹرک جانے بھی دے تو غزہ کے مکینوں کے مطابق یہ سامان اس قدر خراب ہو چکا ہوتا ہے کہ بدبودار اور کیڑوں والا ہوتا ہے کہ ناقابل استعمال ہو جاتا ہے۔ کچھ ممالک نے ائیر ڈراپ کے ذریعے یہ امداد پہنچانے کی کوشش کی مگر اکثر سامان سمندر میں یا غلط جگہوں پرگر گیا۔
ہم روزانہ خبروں میں دیکھتے ہیں کہ غزہ کے ہاسپٹلز میں خون ادویات اور میڈیکل سپلائیز بھی موجود نہیں ہیں۔ لوگوں کے پاس پینے کا پانی بھی نہیں وہ جانوروں کا چارہ اور کچرے سے آلو کے چھلکے چن کر کھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ امداد جا کہاں رہی ہے؟ دنیا کا دوہرا معیار اور منافقت بالکل واضح ہے یو این سمیت تمام انسانی حقوق کے ادارے جو مغربی ممالک کے ایک کتے کے پیاسے ہونے پر بھی شور مچا دیتے ہیں فلسطین کے ہاسپٹلز پناہ گزین کیمپس، اسکولز پر حملے میں مرنے والے معصوم بچوں اور شہریوں کے سر بریدہ لاشے دیکھ کر خاموش ہے۔ انہوں نے نہ صرف اسرائیل کو بربریت ڈھانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے بلکہ اسے مظلوم اور حماس کو ظالم دکھا کراس کی بھرپور مدد بھی کر رہے ہیں۔
غزہ کے رہائشی بھوکے، پیاسے، بنا بجلی، پانی، چھت کے کھلے آسمان تلے زخمی اور بے یارو مددگار پڑے ہیں ۔اگر آج ہم نے ان کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل ہم بھی اس بربریت کا اگلا شکار بن سکتے ہیں پھر باقی دنیا ہمارا بھی تماشہ دیکھے گی۔آج فلسطین صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے تو کل باقی مسلم ممالک بھی بے نام و نشان ہو جائیں گے۔
1897 میں آسٹریا کے تھیوڈور ہرتزل نے صیہونی تحریک کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کرنا تھا۔ لیکن سلطان عبدالحمید دوم نے ان کے منصوبے کو مسترد کر دیا اور فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری پر پابندی لگا دی۔
جہاں اسرائیل کا قیام اور فلسطین پر ناجائز قبضہ غیر منصفانہ اور المناک ہے وہی سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پون صدی پر محیط اس ناانصافی پر مسلم امہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل نے نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کر دیا ۔لاکھوں کو ہلاک کر دیا بلکہ اردن، شام، مصر اور لبنان کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔تعلیمی اداروں، ہاسپٹلز تک پر حملے کر کے ہزاروں معصوم خواتین اور بچے شہید کیے جا چکے ہیں۔ انہیں اشیائے خوردونوش اور میڈیکل سپلائیز سے محروم کر کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے۔ مگر ہیومن رائٹس ادارے اور اقوام متحدہ خاموش ہیں بلکہ اس ظلم میں حلیف بن کرایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
جو مسلم ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سے وہ محفوظ رہیں گے اور اسرائیل کا فوکس صرف فلسطین پر قبضے تک محدود رہے گا۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ اگر انہوں نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی تو جلد ہی وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ اسرائیل کا منصوبہ صرف فلسطین پر قبضے تک محدود نہیں ہے بلکہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے تحت وہ پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے عزائم مصر، اردن، شام اور عراق تک پھیلے ہوئے ہیں۔
حل یہ ہے کہ سب سے پہلے تو سب مسلم ممالک کو متحد ہو کر اسرائیل اور اس کے حامی ممالک پر سفارتی دباؤ ڈالنا ہو گا کہ وہ نہ صرف سیز فائر کرے۔ بلکہ فلسطینیوں کو ان کے علاقوں میں دوبارہ آباد بھی کرے۔ اگر سفارتی معاملات ناکام رہیں تو تجارتی بائیکاٹ کیا جائے۔ مسلم ممالک اپنے اثاثے ان کے بینکس سے نکال لیں، اپنے کاروبار بند کر دیں، انہیں تیل سپلائی نہ کریں، مل کر ایسی فوج تشکیل دیں جو اسرائیل اور اس کے حامی ممالک سے مقابلہ کر کے اپنے فلسطینی بھائیوں کوظلم سے آزادی دلا سکیں۔
نہ صرف سفارتی سطح پر فلسطین کا مسئلہ اجاگر کیا جائے بلکہ پرنٹ، الیکٹرانک، سوشل میڈیا پر بھی تشہیر کی جائے، حقائق سامنے لائے جائیں۔کیونکہ اسرائیل خود کو مظلوم اور فلسطینیوں کو ظالم بنا کر پیش کر رہا ہے۔ اکثر معاہدوں کی خلاف ورزی کر کے نہتے خواتین، بچوں اور مریضوں پر حملے کر کے الزام حماس، حزب اللہ پر لگا دیتا ہے۔
لہذا نہ صرف امت مسلمہ بلکہ مسلم حکمرانوں کو بھی آپس کے اختلافات مٹا کر اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ حکم ربی بھی ہے:”اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں (کی آزادی) کے لیے نہیں لڑتے، جو (ظالموں کے ہاتھوں) کمزور کر دیے گئے ہیں، جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال، جس کے لوگ ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار مقرر کر دے۔”النساء: 75
جس صبر و استقامت سے فلسطینی ظلم برداشت کر رہے ہیں اللہ تعالٰی دیکھ رہا ہے اور ان کی مدد کی فریاد اور ہمارا کمزور ایمان اور بے حس رویہ بھی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں مظلوم فلسطینیوں کی بدعا لگ جائے کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا اور ہم نہ دنیا کے رہیں نہ آخرت میں پناہ ملے۔