کچھ کھانوں پر ملکی ٹھپہ کیوں لگا ہوتا ہے – جبکہ وہ پاسپورٹ کے بغیر ہی گھوم رہے ہوتے ہیں؟

صدف سید
یہ عجیب سی بات ہے نا کہ کچھ کھانے کسی مخصوص ملک کے نام سے جُڑ جاتے ہیں، جیسے وہ کوئی شہری ہوں جن کے پاس ایک سرکاری پاسپورٹ ہے اور جو سرحدوں کے بغیر کہیں جا ہی نہ سکتے ہوں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ کھانے ہمیشہ سے سفر میں رہے ہیں، وقت، تاریخ، جنگوں، تجارت، ہجرت، اور یہاں تک کہ اتفاقیہ دریافتوں کے ساتھ یہ ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچتے رہے ہیں، مگر ہم انہیں ایک خاص جھنڈے تلے قید کر دیتے ہیں، جیسے وہ کسی ایک قوم کے ساتھ پیدا ہوئے اور وہیں فنا ہو جائیں گے۔ لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ کھانے کبھی بھی کسی ایک ثقافت کے محتاج نہیں ہوتے، وہ ایک درخت کی شاخوں کی مانند ہوتے ہیں جو زمین کہیں اور سے حاصل کرتے ہیں مگر ان پر لگنے والے پھل کہیں اور جا کر کھائے جاتے ہیں۔
آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کیسے "بریانی” کا ذکر ہوتے ہی ذہن میں پاکستان یا ہندوستان کا نقشہ ابھر آتا ہے، حالانکہ اس کی جڑیں ایران، وسطی ایشیا اور یہاں تک کہ عرب دنیا تک جاتی ہیں؟ مغل بادشاہوں کے شاہی باورچیوں نے اسے ہندوستانی مصالحوں کے ساتھ نیا رنگ دیا، مگر حقیقت میں یہ فارسی "پلو” سے متاثر تھی، جو ترکی اور ازبکستان تک کھائی جاتی تھی۔ آج کل بریانی کو پاکستانی یا بھارتی کھانے کے طور پر جانا جاتا ہے، مگر اس کے اجزاء اور انداز مختلف تہذیبوں سے جُڑے ہوئے ہیں۔
یہی حال پیزا کا ہے۔ جیسے ہی پیزا کا نام لیا جائے، فوراً ذہن میں روم کے قدیم کوچے آتے ہیں، مگر پیزا کی بنیاد رکھنے والے یونانی تھے، جنہوں نے پہلی بار روٹی پر مختلف اجزاء رکھ کر پکانے کا آغاز کیا تھا۔ بعد میں یہ روایت اٹلی کے لوگوں نے اپنا لی، اور آج امریکہ میں پیزا کی اتنی اقسام ہیں کہ شاید اطالوی خود حیران رہ جائیں!
یہی حال "فرنچ فرائز” کا ہے۔ نام سے لگتا ہے کہ یہ فرانس کی دین ہوگی، مگر حقیقت میں یہ بیلجیم میں ایجاد ہوئی تھی، جہاں لوگ آلو کے باریک ٹکڑوں کو تیل میں تل کر کھاتے تھے۔ آج دنیا کے ہر کونے میں اسے "فرنچ” فرائز کے نام سے جانا جاتا ہے، حالانکہ بیلجیئم کے لوگ آج بھی اس پر اپنا حق جتاتے ہیں۔
اسی طرح "چکن منچورین” کو چینی کھانے کا حصہ سمجھا جاتا ہے، مگر یہ دراصل بھارت میں چینی نژاد باورچیوں کی ایجاد تھی، جنہوں نے بھارتی ذائقوں کے مطابق چینی کھانوں کو ڈھالا۔ یہی حال "امریکن چاؤمین” اور "ہکا نوڈلز” کا ہے، جو چینی کھانوں کی شکل بدل کر ہندوستانی ذائقوں میں گھل مل گئے۔
"ٹیکو” کو دیکھ لیجیے، جیسے ہی یہ نام آتا ہے، فوراً ذہن میں میکسیکو کا تصور آتا ہے، مگر مکئی، جو اس کا بنیادی جزو ہے، دراصل جنوبی امریکہ کے قدیم قبائل کا تحفہ تھا۔ بعد میں ہسپانوی حملہ آوروں نے اسے یورپ تک پہنچایا اور آج یہ کھانا دنیا کے کئی حصوں میں اپنی الگ الگ شکل میں دستیاب ہے۔
اگر ہم مشرق وسطیٰ کی بات کریں تو "حُمُص” اور "فلافل” کو اکثر عرب کھانوں سے جوڑا جاتا ہے، مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ لبنان، اسرائیل، فلسطین، ترکی اور یونان، سبھی اس پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں؟ ہر قوم کا کہنا ہے کہ اصل حُمُص انہی کا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا کھانا ہے جو مختلف ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی الگ الگ پہچان بنا چکا ہے۔
"پاستا” اور "نوڈلز” کو ہی دیکھ لیں۔ پاستا کو اطالوی کھانے کے طور پر جانا جاتا ہے، مگر نوڈلز کی ایجاد دراصل چین میں ہوئی تھی، اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مارکو پولو انہیں چین سے اٹلی لے کر گئے، جہاں یہ مقامی ذائقوں کے مطابق بدل گئے؟ آج پاستا کی بے شمار اقسام ہیں، مگر ان کی جڑیں ایشیا میں دبی ہوئی ہیں۔
چائے، جسے آج برطانوی ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، دراصل چین کی دین ہے، جہاں ہزاروں سال پہلے چائے کی پتیاں دریافت ہوئیں۔ آج برطانیہ، بھارت، پاکستان، اور مشرق وسطیٰ میں چائے کے مختلف انداز ہیں، کہیں قہوہ، کہیں دودھ والی چائے، تو کہیں مصالحے والی چائے، مگر اس کی جڑیں بدستور چین میں ہی موجود ہیں۔
اسی طرح قہوہ، جو آج عرب ممالک، ترکی، ایران اور پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں مشہور ہے، کبھی وسطی ایشیا کے خانہ بدوشوں کا پسندیدہ مشروب ہوا کرتا تھا۔ آج ترک قہوہ، عرب قہوہ، اور کشمیری قہوہ سبھی اپنی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، مگر بنیاد سب کی ایک ہی ہے۔
"سشی” جاپان کی پہچان بن چکی ہے، مگر چاول میں مچھلی محفوظ کرنے کا یہ طریقہ جنوب مشرقی ایشیا میں شروع ہوا تھا، جہاں مچھلی کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے چاول میں دفن کر دیا جاتا تھا، بعد میں جاپانیوں نے اس تکنیک کو مزید بہتر بنا کر آج کی جدید سشی تخلیق کی۔
اسی طرح "ڈونر کباب” کو جرمن یا ترک کھانے کے طور پر جانا جاتا ہے، مگر یہ دراصل وسطی ایشیا کے چرواہوں کی دین تھا، جنہوں نے گوشت کو دہکتے انگاروں پر سینکنا شروع کیا، جو بعد میں ترک کباب اور پھر یورپی "شاورما” میں تبدیل ہوا۔
"پینکیکس” کو امریکی ناشتے کا حصہ سمجھا جاتا ہے، مگر یہ صدیوں سے مختلف تہذیبوں میں موجود ہے۔ فرانس میں "کریپ”، ہندوستان میں "چِلا”، اور جاپان میں "اوکونومیاکی” سب اسی کی مختلف شکلیں ہیں، مگر آج بھی امریکی پینکیکس سب سے زیادہ مشہور ہیں۔
یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے، مگر بات ایک ہی ہے کہ کھانے کسی قوم کے نہیں ہوتے، بلکہ ان تمام ہاتھوں کے ہوتے ہیں جنہوں نے انہیں تراشا، سنوارا، بدلا اور انہیں مزید ذائقہ دیا۔ آج جو کھانے کسی خاص ملک کی پہچان بنے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ چند صدیوں بعد کوئی اور ان کا دعویدار ہو۔ کھانے سفر کرتے ہیں، رنگ بدلتے ہیں، نئے ذائقے اختیار کرتے ہیں، اور جب ہم کسی کھانے پر کسی خاص ملک کی مہر دیکھتے ہیں، تو شاید ہم اس کے پورے سفر کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کھانوں کو کسی خاص ملک سے کیوں جوڑ دیتے ہیں؟ شاید یہ ہماری فطرت میں شامل ہے کہ ہم چیزوں کو شناخت دینا چاہتے ہیں، انہیں کسی ایک ثقافت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ذائقے ہمیشہ آزاد رہے ہیں، جیسے خوشبو، جو کسی ایک باغ میں قید نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے جب بھی کسی کھانے پر کسی ملک کا ٹھپہ دیکھیں، تو ایک لمحے کو سوچیں کہ وہ کھانا کہاں کہاں سے گزر کر آپ کی میز تک پہنچا ہے، کیونکہ کھانے، انسانوں کی طرح، ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں، مگر ان پر سرحدوں کی مہر لگانا شاید ہمارا شوق ہے۔