فیکٹ چیک: چارسدہ کے امتحانی ہال میں گرفتار نگران "اصلی” تھا یا "جعلی”؟

رفاقت اللہ رزڑوال
12 اپریل کو خیبرپختونخوا اور خصوصاً ضلع چارسدہ کے مقامی سوشل میڈیا پیجز اور واٹس ایپ گروپس میں ایک دعویٰ وائرل ہوا کہ امتحانی ہال سے گرفتار ہونے والا نگران استاد "ذکریا” جعلی نہیں بلکہ تعلیمی بورڈ کا باقاعدہ مقرر کردہ نگران تھا۔
دعویٰ میں کہا گیا کہ استاد کی ڈیوٹی میٹرک امتحانات میں بورڈ کی طرف سے لگائی گئی تھی، مگر صرف آن لائن سسٹم میں اپ ڈیٹ نہیں ہو سکی تھی، اور انہوں نے اپنی "ذمہ داری اور ایمانداری” سے ڈیوٹی انجام دی۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے جذباتی انداز میں لکھا "کیا استاد اتنا حقیر ہے کہ بلا تحقیق رسوا کیا جائے؟ اس کی عزت پامال ہوئی، انصاف دیا جائے۔”
ٹی این این کی تحقیق کے مطابق استاد ذکریا نے 29 مارچ کو محکمہ تعلیم چارسدہ کے ایس ڈی او کو ایک جعلی خط دکھا کر آگاہ کیا کہ انہیں پشاور بورڈ نے نگران مقرر کیا ہے۔ ایس ڈی او نے ان کے خط پر دستخط ضرور کئے، مگر یہ محض ان کی اطلاع کی رسید تھی، تقرری کی تصدیق نہیں۔
8 اپریل کو امتحانات کے آغاز پر ذکریا نے امتحانی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ کو بورڈ کا جعلی آرڈر دکھا کر امتحانی ہال میں نگران کی حیثیت سے ڈیوٹی شروع کر دی۔
9 اپریل کو ضلعی انتظامیہ کو شکایت ملی، جس پر تفتیش کے دوران بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور سے رابطہ کیا گیا۔
ٹی این این کی موصول ہونے والی بورڈ کا ایک دستخط شدہ خط موصول ہوا ہے، جس میں استاد کی تقرری کے خط کو جعلی قرار دیا گیا ہے اور حکام نے تصدیق کی کہ چارسدہ کے شیرپاؤ کے کسی بھی نجی یا سرکاری اسکول میں ذکریا نامی کسی استاد کی بطور نگران تقرری کبھی کی ہی نہیں گئی۔
اسی طرح سیکریٹری بورڈ نے اسی جعلی خط کو لے کر ضلعی انتطامیہ کو تقرر نامے کو جعلی قرار دیتے ہوئے قانونی کارروائی کی ہدایت جاری کی۔
ضلعی انتظامیہ نے ذکریا کے خلاف دھوکہ دہی (دفعہ 419) اور جعلسازی (دفعہ 420) کے تحت مقدمہ درج کرکے اسے حوالات میں بند کر دیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا دعویٰ کہ "استاد ذکریا اصلی نگران تھا”، غلط ثابت ہوا ہے۔ بورڈ کا ریکارڈ اور ضلعی تحقیقات دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہے کہ ذکریا نے جعلی دستاویزات کے ذریعے امتحانی عمل میں شامل ہونے کی کوشش کی۔