عوام کی آوازمتفرق

واٹس ایپ گروپس: ایک ڈیجیٹل سراب یا علمی مباحثے کا قبرستان؟

ایک وقت تھا جب فکری مباحثے کلاس رومز، یونیورسٹی کیفے، ادبی نشستوں، چائے خانوں اور سماجی اجتماع گاہوں میں ہوا کرتے تھے۔ پھر آیا واٹس ایپ، اور اچانک ہر شخص محض موبائل اسکرین کے سامنے بیٹھ کر عالمی سیاست، معیشت، طب اور کوانٹم فزکس کا خودساختہ ماہر بن گیا۔

ابتدائی طور پر محض رابطے کے لیے بنائے گئے یہ واٹس ایپ گروپس اب نیم دانشورانہ اکھاڑوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، جہاں لوگ سازشی نظریات، جھوٹی خبروں اور غیر ضروری آرا پر فکری جنگ لڑ رہے ہیں۔

یہ گروپس دراصل ہمارے معاشرے کا عکس بنتے جا ریے ہیں۔ میمز، تحقیقاتی مضامین، سیاسی پروپیگنڈہ اور خود ساختہ فلاسفروں کے تھکا دینے والے پیغامات کا بے ہنگم امتزاج ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کوئی کسی کو بھی نہیں سن رہا۔ سب صرف یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ذہین ہیں۔

بظاہر یہ گروپس مفت ہیں، لیکن اصل قیمت کیا ہے؟ ہم ان بے نتیجہ بحثوں میں قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں، علمی ترقی کے بجائے محض چالاک جملے بازی میں تسکین تلاش کر رہے ہیں۔ ان گروپس میں اصل علم نہیں، بلکہ انا کے نمبر ہیں۔ لوگ سیکھنے کے لیے نہیں بلکہ جیتنے کے لیے آتے ہیں۔

اس سے بھی خطرناک پہلو یہ ہے کہ واٹس ایپ گروپس ایک جھوٹا تاثر دیتے ہیں کہ ہم کسی بامعنی مکالمے میں شامل ہیں۔ کوئی ایک مضمون شیئر کرتا ہے، اور سب کو لگتا ہے کہ کسی اہم موضوع پر بحث ہوتی ہے۔ مگر حقیقت میں زیادہ تر لوگ سرخی سے آگے پڑھتے ہی نہیں۔ کچھ افراد اپنی "رائے” دے دیتے ہیں، باقی لوگ صرف ایموجیز کے ذریعے ردعمل دے کر خود کو باخبر ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگرچہ چند ہی آوازیں حاوی ہوتی ہیں، جبکہ باقی لوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، کبھی کبھار کچھ لوگ ایک بے محل لطیفہ یا "صبح بخیر” کا پیغام ڈال کر اپنا وجود ثابت کر دیتے ہیں۔

یہ گروپس محض مباحثے کے لیے نہیں، بلکہ "انا پرستی” کے مراکز بن چکے ہیں۔ گروپ ایڈمنز کو مطلق العنان طاقت حاصل ہوتی ہے کہ جسے چاہیں شامل کر لیں، جسے چاہیں نکال دیں۔ کسی کو گروپ سے ہٹانا محض ایک کلک نہیں بلکہ ڈیجیٹل دور میں "سرعام پھانسی” کے مترادف ہے۔ نکالے جانے کو لوگ ذاتی توہین سمجھتے ہیں، جیسا کہ پشاور میں پیش آنے والا وہ افسوسناک واقعہ جہاں ایک شخص نے گروپ سے نکالے جانے پر ایڈمن کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔

اس تمام افراتفری کے پیچھے "جمہوریت کا سراب” چھپا ہے۔ واٹس ایپ ہر کسی کو آواز دیتا ہے، لیکن سب کی آواز یکساں اہمیت نہیں رکھتی۔ سب سے زیادہ بلند اور جارحانہ مزاج رکھنے والے افراد بحث پر قابض ہو جاتے ہیں۔ علمی مکالمے شور شرابے میں بدل جاتے ہیں اور اجتماعی سوچ (groupthink) کا غلبہ ہوتا ہے۔ کیا یہ واقعی آزادیٔ اظہار ہے یا محض ہماری سماجی کمزوریوں کا ڈیجیٹل عکس؟

ماہرین نفسیات اور سماجیات اس رجحان کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ واٹس ایپ گروپس حقیقی دنیا کے سماجی ڈھانچے کی عکاسی کرتے ہیں، تعصبات کو مزید گہرا کرتے ہیں اور "ڈیجیٹل قبائل” بنا دیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ باخبر ہیں، کیونکہ وہ آدھی پکی پکائی معلومات پر مشتمل بحثوں میں حصہ لیتے ہیں، مگر ان معلومات کی تصدیق یا تنقیدی تجزیہ نہیں کرتے۔

یہاں "گروپ تھنک” (groupthink) بھی کارفرما ہوتا ہے، جہاں ایک غالب رائے ابھرتی ہے اور مخالفت کرنے والے خاموش ہو جاتے ہیں، کیونکہ انہیں گروپ سے نکالے جانے یا تضحیک کا خوف ہوتا ہے۔ اس سے مختلف نقطہ نظر کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، اور نتیجتاً یہ گروپس ایک گونج خانہ (echo chamber) بن جاتے ہیں، جہاں صرف ایک خاص نظریہ ہی پروان چڑھتا ہے۔

دوسری طرف "اسٹیٹس سگنلنگ” (status signaling) بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ پیچیدہ مضامین شیئر کرتے ہیں، لیکن مقصد دوسروں کو تعلیم دینا نہیں بلکہ اپنی علمی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے۔ یہاں سیکھنے کا عمل نہیں بلکہ "ذہانت” کا دکھاوا چل رہا ہوتا ہے۔

اکثریت خاموش رہتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے حقیقی زندگی میں بیشتر لوگ سیاست پر تو شکایت کرتے ہیں مگر ووٹ ڈالنے یا مکالمے میں عملی شرکت سے گریز کرتے ہیں۔ یہ لوگ گروپ میں موجود رہتے ہیں، پیغامات پڑھتے ہیں، کبھی کبھار ردعمل دیتے ہیں، لیکن بہت کم حصہ لیتے ہیں۔

واٹس ایپ گروپس محض ڈیجیٹل رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک سوشیالوجیکل تجربہ بن چکا ہے ۔ یہ مکالمے کو فروغ دینے کے بجائے تقسیم، غلط معلومات اور سطحی مباحثوں کو بڑھا رہے ہیں۔

حل کیا ہے؟

کیا ہمیں ان گروپس کو چھوڑ دینا چاہیے؟ کیا ہمیں ڈیجیٹل ڈیٹوکس کی ضرورت ہے؟ شاید ہاں۔ لیکن اس کا حقیقی اثر بھی دیکھنا ضروری ہے۔ دنیا بھر میں ایک صارف اوسطاً ہر ماہ 16.5 گھنٹے واٹس ایپ پر گزارتا ہے۔ اگر اوسطاً فی گھنٹہ آمدنی $10 سمجھی جائے، تو ہر صارف سالانہ تقریباً $1,980 کی پیداواری صلاحیت کھو رہا ہے۔ اور اگر دو ارب سے زائد صارفین کو مدنظر رکھا جائے، تو مجموعی اقتصادی نقصان حیران کن حد تک زیادہ ہے۔

معاشی نقصان کے علاوہ، واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کا حد سے زیادہ استعمال ذہنی دباؤ، بے چینی اور توجہ کی کمی سے بھی منسلک ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ گروپس واقعی کسی مثبت بحث کا ذریعہ ہیں، یا صرف وقت کے زیاں کا ایک اور ذریعہ؟

اصل مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ ہماری ذہنیت ہے۔ جب تک ہم واٹس ایپ گروپس کو علمی میدان کے بجائے محض ایک غیر رسمی بحث کا فورم نہیں سمجھیں گے، تب تک یہ "واٹس ایپ ریپبلک” اسی طرح پروان چڑھتی رہے گی—ایک اور غیر پڑھی گئی تحریر، ایک اور انا پر مبنی بحث، اور ایک اور ڈیجیٹل جلاوطنی کے ساتھ۔

اور ہاں، ستم ظریفی یہ ہے کہ جیسے ہی یہ مضمون شائع ہوگا، میں بھی اسے مختلف واٹس ایپ گروپس میں شیئر کروں گا۔ دیکھتے ہیں کتنے گروپس سے نکالا جاتا ہوں!

نوٹ: اس تحریر کا ذیادہ تر مواد ” ایکسپریس ٹریبیون” سے مآخذ ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button