تحریری مطالبات کے بعد سخت فیصلہ: کیا مذاکرات کا دردناک انجام قریب ہے؟
پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات پر حکومتی ترجمانوں کے سخت ردعمل کے بعد 17 جنوری کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ محترمہ بشری بی بی کو بالترتیب 14 اور 7 سال کی سزائیں سنائی گئیں جس سے مذاکرات سے وابستہ رہی سہی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں 16 جنوری کو شروع ہوا جس میں تحریک انصاف نے تین صفحات پر مشتمل تحریری مطالبات پیش کر دیے ہیں۔
پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات میں 9 مئی اور 24 سے 27 نومبر کے واقعات پر الگ الگ جوڈیشل کمیشن بنانے اور پی ٹی آئی کے سیاسی قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات شامل ہیں جبکہ ان مطالبات میں مینڈیٹ کی واپسی کا کوئی مطالبہ شامل نہیں ہے جو 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کا ایک بنیادی مطالبہ رہا ہے۔
کمیٹیوں کے اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں کمیٹیوں کے درمیان طے پایا کہ حکومتی کمیٹی سات دنوں کے اندر پی ٹی آئی کے مطالبات پر اپنا باضابطہ تحریری مؤقف دے گی۔ اس دوران حکومتی کمیٹی میں شامل سات جماعتیں اپنی اپنی قیادت اور وکلا سے مشاورت اور رہنمائی لے کر اجتماعی مؤقف سے پی ٹی آئی کمیٹی کو آگاہ کریں گی۔
مذاکرات کے تیسرے دور کے بعد نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ایوان بالا کے رکن اور حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّه نے کہا کہ پی ٹی آئی کا چارٹر آف ڈیمانڈز جھوٹ کے سوا کچھ نہیں، اس کا جواب بنتا ہی نہیں جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللّه تارڑ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات پر کوئی کمیشن نہیں بنے گا۔
پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات پر حکومتی ترجمانوں کے سخت ردعمل کے بعد 17 جنوری کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ محترمہ بشری بی بی کو بالترتیب 14 اور 7 سال کی سزائیں سنائی گئیں جس سے مذاکرات سے وابستہ رہی سہی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی این این کی سابق رکن ناہید جہانگیر مبینہ قاتلانہ حملے میں دو بہنوں سمیت زخمی
کیا تحریک انصاف کے تحریری مطالبات پر جوڈیشل کمیشن بن پائیں گے اور کیا مذاکراتی عمل آگے بڑھ پائے گا یا مذاکرات ناکام ہوں گے؟ ان سوالوں کو لے کر ٹی این این نے سیاسی تجزیہ نگاروں کی آراء جاننے کی کوشش کی ہے۔
جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ ماننا آسان یا مشکل: مذاکرات میں بریک تھرو کا امکان
اصل مذاکرات علی امین گنڈاپور کر رہے ہیں: ماریہ میمن
اے آر وائی نیوز پر پرائم ٹائم شو کرنے والی سینئر صحافی و اینکر پرسن ماریہ میمن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے تحریری مطالبات کے سامنے آنے کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے کیوں کہ حکومت کی زیادہ تر دلچسپی 9 مئی کے اوپر جوڈیشل کمیشن بنانے میں ہے جبکہ پی ٹی آئی 9 مئی کے ساتھ ساتھ 26 نومبر کے واقعات پر بھی جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کر رہی ہے کیوں کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ 26 نومبر کو گولی چلنے کا تعلق حکومت سے ہے۔
کمیشن کے ٹی او آرز اور مذاکرات میں بریک تھرو سے متعلق ماریہ میمن نے بتایا کہ ٹی او آرز تو کم و بیش وہی ہیں جو پی ٹی آئی نے اپنے تحریری مطالبات میں بتائے۔ بقول ان کے مذاکرات میں بریک تھرو یہاں پارلیمنٹ میں نہیں ہونا بلکہ پی ٹی آئی اور مقتدرہ کے ان مذاکرات میں ہونا ہے جو وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور لیڈ کر رہے ہیں، اگر وہاں کوئی بریک تھرو ہوا تو یہاں بھی بریک تھرو ہو جائے گا۔
مذاکرات کا دردناک انجام: منیب فاروق
365 نیوز پر پرائم ٹائم شو کرنے والے سینئر صحافی و اینکر پرسن منیب فاروق نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے مطالبات کوئی اتنے ناجائز نہیں ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت یہ کہتی ہے کہ ہم نے یہ نہیں ماننے۔ حکومت اس کیلئے یہ جواز پیش کرتی ہے کہ یہ دونوں معاملات عدالتی ہیں اور ان میں ایسا کچھ نہیں جس کا فیصلہ کمیشن کے ذریعے ہو سکے۔
منیب فاروق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہ ہوئی تو پھر یہ مذاکراتی عمل بڑے دردناک انجام کے ساتھ اختتام پذیر ہو گا۔
حکومت تحریری مطالبات پر بضد کیوں؟
منیب فاروق سمجھتے ہیں کہ حکومت تحریری مطالبات پر اس لیے بضد تھی کیوں کہ حکومت چاہتی تھی کہ جب پی ٹی آئی اپنے مطالبات لکھ کر دے گی تو حکومت عوام کو بتائے گی کہ دیکھیں اپنے لیڈر کیلئے این آر او مانگنے آ گئے۔ دوسرا حکومت چاہتی تھی کہ اس مذاکراتی عمل کو تھوڑا سا طول بھی دیا جائے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مذاکرات زیادہ دیر چلے نہیں۔
ماریہ میمن کے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں- پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی مذاکراتی عمل آگے بڑھتا اور کوئی پیش رفت سامنے آتی تو جیل سے عمران خان کا کوئی نیا حکم جاری ہوتا جس سے مذکراتی کمیٹی بےاثر ہوجاتی اور معاملات تعطل کا شکار ہو جاتے اس لیے اب کی بار پی ٹی آئی سے تحریری مطالبات مانگے گئے تاکہ پی ٹی آئی اپنی بات پر قائم رہے۔ ان کے نزدیک تحریری مطالبات کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کو اگر سیاسی طور پر شرمندہ کرنا ہو تو ان مطالبات کو لہرا لہرا کر پریس کانفرنس بھی کی جا سکتی ہے۔
صحافی و تجزیہ نگار ماجد نظامی نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے تحریری مطالبات کا سامنے آنا اس لیے خوش آئند امر ہے کیوں کہ اس سے مذاکرات ایک قدم آگے بڑھیں گے۔ حکومت کی جانب سے اس کا مطالبہ بھی اس لیے کیا گیا کہ اعتماد کا فقدان موجود ہے کیوں کہ عمران خان سے متعلق یہ ایک شکوہ موجود ہے کہ وہ مسلسل اپنے بیانات تبدیل کرتے رہتے ہیں تو اس لیے جب تحریری مطالبات سامنے ہوں تو ان کے اوپر کام کرنا اور ان کا جواب دینا زیادہ آسان ہو گا۔
مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہو گا؟
ماریہ میمن کے نزدیک مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی کے امکانات تقریباً ایک جیسے ہیں لیکن مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ذمہ داری کا تعین اس وقت اس لیے مشکل ہے کیوں کہ یہ معلوم کرنا ہو گا کہ مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات کیا بنیں؟ لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا نقصان ضرور ہو سکتا ہے۔
منیب فاروق کا خیال ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں پی ٹی آئی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرائے گی جبکہ حکومت کہے گی کہ پی ٹی آئی کے مطالبات غیرسنجیدہ ہیں بلکہ حکومت نے تو ابھی سے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ ہم سے این آر او مانگ رہے ہیں، ریلیف مانگ رہے ہیں لہٰذا اگر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو دونوں فریق ایک دوسرے پر الزام لگائیں گے اور کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔
ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی اور ناکامی ایک کٹھن مرحلہ ضرور ہے اور دونوں اطراف کے مزاج کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا لہٰذا اس کا فیصلہ ابھی نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ ایک خوش آئند امر اس لیے لگ رہا ہے کہ دونوں اطراف یہ سمجھ چکے ہیں کہ مذاکرات سے ہی آگے بڑھنا ہے۔ پی ٹی آئی کو پتا چل گیا کہ احتجاج سے وہ اپنا راستہ نہیں بنا سکتے اور حکومت میں بھی یہ احساس موجود ہے کہ چار سال اس طرح غیرمستحکم صورت حال میں وہ حکومت نہیں چلا پائیں گے۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد کا سیاسی منظر نامہ کیسا ہو گا؟
منیب فاروق اس حوالے سے یہ رائے رکھتے ہیں کہ تلخیوں میں اضافہ تو پہلے ہی کافی حد تک ہو چکا ہے لیکن شائد ہمیں وہ والی تلخی اب دیکھنے کو نہ ملے جو پہلے تھی لیکن اگر یہ حالات درست سمت کی طرف نہ چلے گئے تو معاملات مزید خراب بھی ہو سکتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کیلئے اہم فیکٹر ہے جو ان کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اگر یہ مذاکراتی عمل ختم ہو گیا تو پھر ڈیڈ لاک ہو جائے گا اور پھر شائد معاملات درست نہ ہوں۔ ایک تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کوئی بیک ڈور رابطے ہو رہے ہیں لیکن اس وقت مقتدرہ کی جو پوزیشن ہے اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد کے سیاسی منظرنامے سے متعلق ماریہ میمن نے کہا کہ تلخیاں بڑھیں یا کم ہوئیں لیکن یہ مذاکراتی عمل مستقبل میں کسی بھی قسم کی سیاسی انگیجمنٹ کیلئے اچھا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں سیاسی جماعتوں کے نمائندہ گان کا ایک ساتھ بیٹھنا اور ایک خوشگوار ماحول کے اندر بات چیت کرنا پاکستانی سیاست میں بہت بڑا بریک تھرو ہے۔
190 ملین پاؤنڈ کیس کا سخت فیصلہ اور مذاکراتی عمل
ماجد نظامی کا خیال ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے کا مذاکراتی عمل پر ضرور اثر پڑے گا کیوں کہ مذاکراتی عمل ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر جو مزاحمتی گروپ موجود ہے وہ فیصلہ خلاف آنے کے بعد اب ایکٹیو ہو سکتا ہے اور پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو مذاکرات یا بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالنا چاہتے ہیں ان پر تنقید میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر مذاکراتی کمیٹیاں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو پھر ہو سکتا ہے کہ عدالتی معاملات ایک طرف اور مذاکراتی عمل دوسری طرف جاری رہے۔