بلاگز

عورت شوہر کے لیے طوائف بن جائے..!

ڈاکٹر نبیہا کا ایک پروگرام میں، "اگر عورت کو شوہر کے لیے طوائف بھی بننا پڑے تو اسے بننا چاہیے"، یہ جملہ بے حد وائرل ہوا جسے مردوں کی بڑی تعداد نے پسند کیا اور عورتوں نے ناپسند۔

ڈاکٹر نبیہا کا ایک پروگرام میں، "اگر عورت کو شوہر کے لیے طوائف بھی بننا پڑے تو اسے بننا چاہیے”، یہ جملہ بے حد وائرل ہوا جسے مردوں کی بڑی تعداد نے پسند کیا اور عورتوں نے ناپسند۔

ایک اور پروگرام میں انہوں نے اس کی وضاحت یوں کی: "میرا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ عورت اپنے شوہر کے لیے طوائف کی طرح سجے سنورے اور اس سے اظہار محبت کرے۔ اگر وہ ٹک ٹاک پر ناچ کر دوسرے مردوں کا دل لبھا رہی ہے تو شوہر کا کیوں نہیں لبھا سکتی۔ اسے اپنے شوہر کو ادائیں دکھانی چاہئیں؛ اس سے وہ باتیں کرنی چاہئیں جو وہ دوسروں سے کرتی ہے۔ اور اگر میرا جملہ قابل اعتراض ہے تو بانو قدسیہ نے یہ کیوں لکھا کہ عورت کو مرد کی ماں اور بیوی بننا پڑتا ہے اور اسے خوش کرنے کے لیے طوائف بھی۔”

پہلی بات تو یہ کہ ہر عورت ٹک ٹاک پر ناچ نہیں رہی اور جو ناچ رہی ہیں اگر بقول آپ کے ان میں مردوں کو قابو کرنے کے سارے گٹس موجود ہیں تو ان کی منگنیاں اور شادیاں تو کامیاب ترین اور تاحیات چلنے والی ہونی چاہئیں مگر ان کی منگنی شادی تو بڑے قلیل دورانیہ کے بعد ختم ہو جاتی ہیں۔

دوسری بات یہ کہ ہمارے لیے معیار بانو قدسیہ یا کوئی موٹیویشنل اسپیکر یا ڈاکٹر نہیں بلکہ قرآن و حدیث ہیں جو ازدواج کو ایک دوسرے کا لباس، باعث سکون، کھیتی کہنے کے باوجود ازدواجی تعلق میں بھی کچھ حدود مقرر کرتے ہیں۔ اور یہ حدود توڑنے پر سزائیں بھی ہیں۔ اگر یہ حدود نہ ہوں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ پرندوں اور جانوروں میں بھی کچھ حدود و قیود ہیں جیسے کہ بھیڑیا اور کونج ساری زندگی ایک ہی پارٹنر کے ساتھ گزارتے ہیں اور بیوی بچوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ان کے مرنے کے بعد بھی دوسرا پارٹنر نہیں چنتے۔ آج اگر عورت طوائف بن جائے گی تو کل کو مرد اسے ایڈلٹ فلم کی ہیروئین بننے کی فرمائش کرے گا تو کیا وہ اس کے لیے جانور بھی بن جائے۔ اور مزے کی بات یہ کہ مرد کی تسکین پھر بھی نہیں ہوتی کیونکہ ایسا مرد کسی ایک عورت پر اکتفا کر ہی نہیں سکتا نہ ہی اسے حلال کی عادت رہتی ہے، اسے مزہ ہی حرام میں آتا ہے۔

اسلام نے حلال و طیب کھانے کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ کھانا انسانی عادات و جذبات پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ سور کھانے والوں میں ویسی ہی عادات پائی جاتی ہے ہیں جیسے سور گندگی میں رہتا ہے اور محرم نامحرم کی تخصیص کے بغیر جسمانی تعلق رکھتا ہے ویسے ہی اس کے کھانے والے کرتے ہیں۔ بیوی کے روپ میں طوائف چاہنے والے چار بیویوں کے ہونے کے باوجود عورتوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور پھر اپنی ہی محرم خواتین پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پختونخوا کے عوامی فنڈز دھرنوں اور اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں: کیپٹن صفدر

فرض کیجیے آپ کی بات کو سچ مان لیا جائے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر شوہر یا بیوی کسی بیماری یا حادثے کے باعث جسمانی تعلق قائم کرنے کے قابل نہ رہیں تو فوراً طلاق دے کر یا لے کر دوسری شادی کر لی جائے یا پھر نامحرم کے ساتھ حرام تعلقات قائم کرنا جائز ہو جائے گا۔ اس رشتے کا مقصد یا اسے باعث سکون صرف جسمانی تعلق کی وجہ سے قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس پر پورا خاندانی نظام منحصر ہے اس لیے دونوں کی بیماری معذوری کی صورت میں انہیں گھر سے نکالنے یا تعلق ختم کرنے کا نہیں کہا گیا۔

رہ گئی بات شوہر کے لیے سجنے سنورنے، اظہار محبت کرنے اور اسے لبھانے کی تو سسرال کی خدمت اور گھر کے سب کاموں سے اسے فرصت ملے گی تو وہ یہ سب چونچلے کرے گی ناں۔ پہلے اسے اسلامی طریقے کے مطابق ایسا گھر مہیا کیجئے کہ جہاں اسے ذمہ داریوں سے اپنے لیے وقت نکالنے کی فرصت مل جائے۔ یہاں تو سسرال کی خدمت سے اتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کر سکے تو رات کو جب وہ تھکی ٹوٹی اپنے کمرے میں پہنچے گی تو طوائف کی طرح کیا ناچے گی یا اظہار محبت کرے گی!

ہاں۔۔! اس کے پاس وقت اور فرصت ہو اور سسرالی رشتے دار ہیلپر، اور شوہر کوآپریٹو ہو اور پھر بھی بیوی بیزار رہے تب فکر کی بات ہے، اسے سائیکاٹرسٹ سے کونسلنگ کی ضرورت ہے۔ میں کوئی کونسلر تو نہیں ہوں مگر کئی خواتین مجھ سے رابطہ کر چکی ہیں جن کے مطابق ان کے شوہر نہ سجتے سنورتے ہیں نہ ہی انہیں وقت دیتے ہیں۔ بعض کو تو تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور پھر رات کو اپنی ضرورت پوری کر کے منہ پھیر کر سو جاتے ہیں۔ نہ انہیں بیوی کے جذبات کی پرواہ ہوتی ہے نہ بیماری اور تھکن کی۔ اور جو کبھی بیوی ان سے رومینٹک ہونے کی کوشش کرے؛ کہیں جانے کی یا کسی تحفے کی فرمائش کرے تو سننے کو ملتا ہے ”یہ سب بچیوں والے چونچلے مت کرو۔ بڑی ہو جاؤ!”

جس عورت کو دن میں گالیاں جوتے ملیں وہ رات کو آپ کے لیے کیسے طوائف بنے گی؟ اسے تو اپنے آپ سے نفرت ہو جاتی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ تعلق پر مجبور ہے جس کی نظر میں اس کی رتی بھر عزت یا وقعت نہیں۔ اور وہ خود کو واقعی ایسی طوائف محسوس کرتی ہے جسے چند ٹکوں کے عوض صرف جسمانی تعلق کے لیے ہائر کیا جاتا ہے۔

اگر قرآن و حدیث مرد کے حقوق بیان کرتے ہیں تو وہیں عورت کے لیے بھی ویسے ہی حقوق کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ سوائے کفالت کے ان کو ہر ایک کام/چیز میں برابری عطا کی گئی ہے۔ مرد کا بھی کام ہے کہ وہ عورت کی تسکین کرے، اس کے لیے سجے سنورے اور اس کے ساتھ مخلص رہے۔ مگر یہاں تو مرد خود ہفتہ ہفتہ نہاتا نہیں؛ گندے کپڑے ٹوٹا جوتا پہن کر بو میں بسا، مگر بیوی ماڈل چاہتا ہے۔ کیا بیوی کے کوئی جذبات نہیں ہوتے؟

میں ذاتی طور پر ایسی خواتین کو جانتی ہوں جو خوبصورت، دین دار، سلیقہ شعار، اعلی تعلیم یافتہ، اعلی عہدوں پر فائز، گھر اور بچوں، سسرال، شوہر ہر ایک کا خیال رکھنے والی تھیں مگر شوہر کسی ان پڑھ کم رو بدتہذیب عورت کے عشق میں مبتلا بیوی کی ساری کمائی بھی اس پر لٹانے میں مگن تھا۔ اور بڑھاپے میں بیوی کو طلاق دے کر بچے تک چھین لیے۔ اس صورت میں بھی کیا بیوی ہی قصوروار ہو گی، یا مرد معصوم کے لئے بھی کوئی حد مقرر ہے؟

یاد رکھیے مرد ہو یا عورت قرآن حدیث کے مطابق افضل وہی ہے جو اپنی عصمت کی حفاظت کرے۔ شادی شدہ ہو تو زوج سے وفاداری نبھائے۔ یہ دوہرے معیار جو ہمارے معاشرے میں قائم ہیں کہ مرد کو کیا فرق پڑتا ہے اس کے لیے تو سب جائز ہے ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اس لئے اگر مرد طوائف چاہتا ہے تو اسے کسی تماش بین کی طرح عورت پر پیسہ، محبت اور وقت لٹانا ہو گا۔

ضرورت اس امر کی نہیں کہ شوہر تماش بین اور بیوی طوائف بنا دی جائے بلکہ دونوں کو قرآن و حدیث سے روشناس کروانے کی اور ان پر عمل کروانے کی ہے۔ ایسا مواد ختم کرنے کی ہے جو مرد یا عورت میں حرام کی خواہش جگاتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو معاشرے میں فساد تو پھیلے گا ہی خاندانی نظام بھی ختم ہو جائے گا اور چادر اور چاردیواری کا تصور بھی!

نوٹ: یہ باتیں سب مردوں کے لیے نہیں بلکہ صرف ان کے لیے ہیں جو ایسا کرتے ہیں اس لیے ہر مرد کو دل پر لینے کی ضرورت نہیں نہ ہی اسے اپنی توہین سمجھیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button