ناولوں کی خیالی دنیا ہمارے ذہنوں پر کیا اثر ڈال رہی ہے؟
یہ صنف اتنی خامیوں اور خرابیوں کے باوجود آج بھی سانس لے رہی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم خیالی دنیا میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
ناول اطالوی زبان کے لفظ ” ناویلا ” سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں نیا۔ لغت کے اعتبار سے ناول کے معنی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنف ادب میں اس کی تعریف ”زندگی کے بنیادی حقائق بیان کرنا” ہے۔ ناول کی اگر جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہے: ” ناول ایک ایسا نثری قصہ ہے جس میں حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے؛ یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہماری امنگیں اور آرزوئیں جھلکتی ہیں، اس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارے سامنے کیا مشکلیں آتی ہیں اور ہم ان پر کس طرح قابو پاتے ہیں۔ گویا ناول زندگی کی تصویر کشی کا فن ہے۔
ناول مغربی اثر کے تحت اردو میں آیا۔ اس سے پہلے اردو میں داستان اور قصے کہانیاں موجود تھیں۔ اردو میں ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کی کہانیوں کو ناول کا پہلا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا پہلا ناول "مراة العروس” 1869 میں شائع ہوا۔ ناول وہ ادبی صنف ہے جو ایک عرصے سے قارئین کے دلوں پر راج کر رہی ہے۔ہمارے بچپن میں ہمیں ٹوٹی پھوٹی کہانیاں سنائی جاتی تھیں اور ہم بڑی دلچسپی سے سنتے تھے۔ تب پیارومحبت اور عشق و جنون جیسی باتوں سے ہم کافی دور تھے۔
ناول کا بنیادی مقصد زندگی کے بنیادی حقائق اجاگر کر کے اگلے ہی اصلاح کی کوشش کرنا ہے لیکن ہمارے یہاں نتیجہ اس کے برعکس نکل رہا ہے۔ آج پرائمری سکول کی بچیاں، جنھوں نے ابھی اڑان بھری ہی نہیں ہے، کتابیں پڑھنے کے بجائے ناولز کو ترجیح دیتی ہیں۔ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں پہلے کہانیاں پھر افسانے اور آخرکار ناول پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن کیا انہیں معلوم ہے کہ اِس عمر میں انہیں ایسی کتب سے دور رہنا چاہیے؟ یہاں غلطی ان بچے بچیوں کی نہیں، یہاں غلطی ان والدین کی ہے جو اپنی اولاد سے بے خبر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 16 دسمبر 1971 اور 2014: ملکی تاریخ کے دو سیاہ ترین دن
ناول اور کہانیاں پڑھنا وقت کاٹنے کا پرانا فیشن ہے جسے اپنا کر انسان ایک خیالی دنیا میں رہنے کا عادی ہو جاتا ہے کیونکہ اکثر ناولز اصل کہانیوں پر مبنی نہیں ہوتے۔ اور جو ہوتے ہیں تو ان میں اتنا مرچ مصالحہ ڈال دیا جاتا ہے کہ ایک نئی کہانی بن جاتی ہے جس میں خامیاں ساری نکل چکی ہوتی ہیں؛ حالانکہ اصل زندگی میں ایسا نہیں ہوتا۔
جب انسان ایک خیالی دنیا میں رہنے لگے تو وہ زندگی میں ہر چیز کو آئیڈیل شکل میں چاہتا ہے اور ایسا ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا۔ ناول ٓپڑھنے کے بعد جب انسان واپس حقیقت کی دنیا میں آتا ہے تو اس کا چیخ و پکار کرنے اور اپنے بال نوچنے کو جی چاہتا ہے۔ جو زندگی ان ناولز میں دکھائی جاتی ہے اس کا دور دور تک حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تب اس کو ایک ٹھوکر لگتی ہے اور دکھ بھی زیادہ ہوتا ہے، اور بالآخر ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ستم اس سے قبل فلمیں اور ڈرامے ڈھا چکے ہیں جس کا اندازہ نہ لوگوں کو ہوا اور نہ ہو رہا ہے۔
ناول پڑھنے والی لڑکیوں سے اکثر یہ فقرہ زیادہ سننے کا ملتا ہے کہ ان کا "سٹینڈرڈ بہت ہائی” ہے۔ جہاں سکندر شاہ، میر سالار، اٹلس اور نہ جانے کتنے ایسے کردار ان کو خیالوں کی دنیا میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کرداروں سے محبت اس وجہ سے بھی ہو جاتی ہے کہ مصنف نے انہیں بہت دلکش اور خوبصورت میں پیش کیا ہوتا ہے۔ اور ان کرداروں سے محبت کی ایک اور وجہ وہ عزت بھی ہے جو وہ اپنی پسندیدہ عورت کو دیتے ہیں۔ میں نے واٹس ایپ سٹیٹس پہ اکثر یہ دیکھا ہے کہ "کاش میر سالار میرا ہوتا!” ظاہری بات ہے ہر لڑکی حقیقی زندگی میں ایسا ہی آئیڈیل چاہتی ہے۔
ناول پڑھنے والی لڑکیوں کا سٹینڈرڈ ہائی نہیں ہوتا، یہ بس وہ چیز تلاش کر رہی ہوتی ہیں جو معاشرے سے کہیں غائب ہوتی جا رہی ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ ناول ہماری نفسیات پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ صنف اتنی خامیوں اور خرابیوں کے باوجود آج بھی سانس لے رہی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم خیالی دنیا میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ دو یا دو سے زیادہ ناول پڑھنے کے بعد پڑھنے کی ایسی عادت پڑ جاتی ہے کہ ساری عمر یہ عادت نہیں چھوٹتی اور ہم خوابوں کی دنیا میں جینے لگ جاتے ہیں۔
عشق و محبت کی کہانیاں، فحش لٹریچر اور غیرمہذب تحریریں لڑکپن اور نوجوان نسلوں کی ذہنی اور عقلی نشونما کے لیے سخت نقصان دہ ہیں اور ایسے لٹریچر سے معاشرے میں اصلاح و بہتری کے بجائے فساد پیدا ہوتا ہے۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی میدان میں باصلاحیت فرد کی حیثیت سے ترقی کریں تو انہیں چاہیے کہ وہ انہین ایسی کتب سے دور رکھیں۔
نوٹ: سعدیہ بی بی کمپیوٹر سائنس کی طالبہ ہیں اور مختلف سماجی و معاشی مسائل پر بلاگز لکھتی رہتی ہیں۔