سیاست

عمران خان کی سول نافرمانی تحریک: اوورسیز پاکستانی کیا کہتے ہیں؟

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا سرپرائز دیتے ہیں؛ حقیقی آزادی کی تحریک اور فائنل کال جیسے سرپرائز کے بعد عمران خان نے اب نیا سرپرائز قوم کو سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے دیا ہے۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نیا سرپرائز دیتے ہیں؛ حقیقی آزادی کی تحریک اور فائنل کال جیسے سرپرائز کے بعد عمران خان نے اب نیا سرپرائز قوم کو سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر کے دیا ہے۔

ڈیلی ‘دی نیوز’ کے ایڈیٹر انویسٹیگیشن، اور سینئر صحافی، انصار عباسی کی ایک خبر کے مطابق خود پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور اسد قیصر سمجھتے ہیں کہ ان کو اس سرپرائز کا ایکس پر عمران خان کی پوسٹ سے پتا چلا۔

جبکہ دوسری جانب سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے اے آر وائی نیوز کی ماریہ میمن کو بتایا کہ سول نافرمانی کی تحریک کا انہیں بانی پی ٹی آئی کی ٹویٹ سے پہلے ان سے جیل میں ہونے والی ملاقات کے دوران پتہ چلا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا شدید سردی کی لپیٹ میں؛ بعض علاقوں میں درجہ حرارت منفی 8 ریکارڈ

عمران خان نے 5 دسمبر کو اپنی ایکس پوسٹ میں دو مطالبات حکومت کے سامنے رکھے جن میں سے ایک مطالبہ یہ ہے کہ تمام انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے؛ جبکہ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، اور اگر 13 دسمبر تک ان کے یہ دو بنیادی مطالبات نہ مانے گئے، جس کیلئے انہوں نے 5 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے، تو پھر وہ 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کریں گے اور اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کی جائے گی کہ وہ اپنی ترسیلات زر محدود کریں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔

کیا بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان کی کال پر لبیک کہیں گے؟ یہ سوال ٹی این این نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے سامنے رکھا۔

فیصل آباد کے علاقے ماموں کانجن سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ فرقان حمید جو اس وقت سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ بطور منیجر وابستہ ہیں، انہوں نے بتایا: "مجھے پاکستانی سیاست دانوں میں عمران خان سے محبت تو ہے لیکن اپنی فیملی سے محبت اس سے کہیں بڑھ کر ہے لہٰذا میں عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک پر لبیک نہیں کہوں گا اور اپنی فیملی کو ہر مہینہ ایک مخصوص رقم قانونی طریقے سے ٹرانسفر کرتا رہوں گا۔

38 سالہ آصف اقبال، جو خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت دبئی میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈائریکٹر آپریشنز ہیں، نے بتایا: "ہم کہیں نہ کہیں عمران خان کی سول نافرمانی کی کال پر لبیک کہیں گے: "جب ہم اپنے گھر والوں کو قانونی طریقے سے پیسے بھیجتے ہیں تو اس سے حکومت پاکستان کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن اب جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کی کال دی ہے تو ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے گھر والوں کو غیرقانونی طریقے یعنی حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسے ٹرانسفر کرنا شروع کر دیں جس سے ہمارے گھر والوں کو پیسے تو ملتے رہیں گے لیکن حکومت پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

پشاور سے تعلق، اور پچھلے 5 سال سے امریکی ریاست میزوری میں رہائش پذیر صحافی روف یوسفزئی نے بتایا کہ اگر عمران خان کی سول نافرمانی تحریک پاکستان میں آئین کی حکمرانی، پارلیمان کی بالادستی، انسانی حقوق کو مقدم رکھنے، چھوٹے صوبوں کے حقوق کے تحفظ اور لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ہوتی تو وہ ضرور ساتھ دیتے اور اپنی ترسیلات زر کم کر دیتے: "عمران خان کی سول نافرمانی کی یہ تحریک تو صرف ان کی شخصیت کے گرد گھوم رہی ہے اور میں شخصیات کیلئے بائیکاٹ کا حامی نہیں ہوں۔”

پاکستان کے شہر راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ سرفراز احمد لندن میں ایک کمپنی کے ساتھ بطور سی سی ٹی وی آپریٹر وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا: "جب بھی ہم پاکستانی کھانے کی میز پر یہاں اکٹھے ہوتے ہیں تو پاکستان کے حالات زیربحث آتے ہیں۔ گزشتہ روز عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک بھی زیربحث آئی۔ ہمارا بیرون ملک آنے کا بنیادی اور واحد مقصد ہی یہی ہے کہ اپنی فیملی کو جتنا ہو سکے سپورٹ کریں لیکن اس وقت لندن میں 80 سے 90 فیصد پاکستانی عمران خان کی سول نافرمانی کی کال کے تناظر میں اپنی ترسیلات زر قانونی طور پر پاکستان نہ بھیجنے کا اصولی فیصلہ کر چکے ہیں۔ حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجنے کے علاوہ ہمارے پاس ایک آپشن یہ ہوتا ہے کہ ہم ادھر لندن میں کسی سٹوڈنٹ کو پیسے دیتے ہیں اور اُدھر پاکستان میں اُس کی فیملی ہماری فیملی کو پیسے ٹرانسفر کر دیتی ہے۔”-

حوالہ ہنڈی اور ایف آئی اے کا موقف

جب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں سے اکثریت نے عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک کو کامیاب کرانے کیلئے اپنی ترسیلات زر غیرقانونی طور پر یعنی حوالہ ہنڈی کے ذریعے بھیجنے کا انکشاف کیا تو ٹی این این نے ایف آئی اے کے میڈیا ونگ سے رابطہ کیا اور حوالہ ہنڈی سے متعلق سوال کیا۔

ایف آئی اے میڈیا ونگ کے ایک نمائندے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کے بعد ایف آئی اے کے اعلیٰ عہدیداروں کی ایک میٹنگ میں یہ معاملہ کہیں نہ کہیں زیر غور آیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے سول نافرمانی کی یہ تحریک شروع ہوتی ہے تو حوالہ ہنڈی کا غیرقانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن بھی ہو سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق عمران خان حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ہر حربہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے عمران خان کی سول نافرمانی تحریک کتنی موثر اور کامیاب ہو سکتی ہے؛ کیا یہ عمران خان کا ممکنہ آخری کارڈ ہو گا، عمران خان کی اس تحریک سے حکومت پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اِن سوالات کو لے کر ٹی این این نے سیاسی تجزیہ نگاروں سے رابطہ کیا ہے۔

سول نافرمانی کی تحریک کتنی موثر ہو گی؟

سینئر صحافی و اینکر پرسن ماریہ میمن نے کہا کہ عمران خان سول نافرمانی کی ایک تحریک 2014 میں بھی چلا چکے ہیں اور تب ریاستی اداروں کی مکمل پشت پناہی کے باوجود وہ اس میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ اب کی بار چلنے والی تحریک کی بھی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آ رہی، خود تحریک انصاف اس حوالے سے یکسو نہیں ہے کہ تحریک کے پہلے مرحلے میں کیا کرنا ہے اور اس کے بعد دوسرے مرحلے میں تحریک کو کیسے آگے لے کر چلنا ہے۔

ماریہ میمن کے نزدیک اوورسیز پاکستانیوں کو یہ کہنا کہ وہ اپنی ترسیلات زر غیرقانونی طریقے سے پاکستان بھیجیں، یہ کوئی دانشمندانہ اقدام ہرگز نہیں ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف کی شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ ملک کے اندر ٹرانسپیرنسی ہو اس لیے پی ٹی آئی کے اس اقدام کو انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں بھی کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ملنے والی۔

سنو نیوز سے وابستہ صحافی و اینکر پرسن اجمل جامی نے کہا کہ عمران خان کی 2014 میں سول نافرمانی کی تحریک بھی کوئی اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی تھی؛ اور اس بار بھی یہ صرف دباؤ کی ایک حکمت عملی دکھائی دے رہی ہے ان دو مطالبات کو منوانے کیلئے جو عمران خان نے حکومت کے سامنے رکھے ہیں۔ عملی طور پر یہ کوئی اتنی قابل عمل اور موثر تحریک ثابت نہیں ہو گی۔

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر اور تجزیہ نگار طاہر ملک نے ماضی میں چلنے والی سول نافرمانی کی تحریکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1930 میں گاندھی جی جیسے اعلی پائے کی شخصیت نے بھی انگریز سرکار کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی لیکن وہ بھی کوئی اتنی موثر ثابت نہیں ہوئی تھی۔ پاکستانی سیاست دانوں کو اس قسم کی تحریک چلانے سے پہلے حکومت اور ریاست میں فرق معلوم ہونا چاہئے۔ ایسی تحریک سے حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کا بھی نقصان ہو گا۔

سول نافرمانی: کیا یہ عمران خان کا ممکنہ آخری کارڈ ہو گا؟

ماریہ میمن کے نزدیک یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں اور یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے پاس ہر طرح کے سیاسی کارڈ موجود ہوتے ہیں اور کس موقع پر کون سے کارڈ سے کھیلنا ہے یہ عمران خان اچھی طرح سے جانتے ہیں لہٰذا سول نافرمانی کی اس تحریک کو ان کا ممکنہ آخری سیاسی کارڈ کہنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔

اجمل جامی کے نزدیک یہ عمران خان کا ممکنہ آخری سیاسی کارڈ ہرگز نہیں ہو گا۔ عمران خان کی سیاست سے آپ اختلاف کریں یا اتفاق لیکن وہ سیاست میں ہر بار غیرروایتی انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔ ان کی اکثر الٹی چال بھی سیدھی چل جاتی ہے۔ وہ بطور کرکٹر بھی اٹیک کرتے تھے اور ہمیشہ کئی آپشنز کے ساتھ میدان میں جاتے تھے۔

پروفیسر طاہر ملک نے کہا کہ سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں اور یہ نہ ختم ہونے والی ممکنات کا کھیل ہے۔ یہ عمران خان کا کوئی آخری سیاسی کارڈ تو نہیں ہو گا لیکن اب تک انہوں نے جتنے سیاسی کارڈ استعمال کئے ہیں ان سب میں حکمت اور دانش کی کمی واضح ہے۔

کیا شہباز حکومت کو کوئی خطرہ لاحق ہو گا؟

ماریہ میمن نے بتایا کہ پاکستان کی سیاست ہے کسی بھی وقت کچھ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت شہباز سرکار کو گھر بھیجنا، اس کو تبدیل کرنا کوئی اتنا آسان کام نہیں ہو گا۔ شہباز حکومت تب تک برقرار رہے گی جب تک مقتدرہ اپنی پوری طاقت سے اس کے پیچھے کھڑی رہے گی۔

اجمل جامی کے نزدیک شہباز سرکار جس مجروح مینڈیٹ کے ساتھ آئی ہے اس پر سوال تو اٹھتے رہیں گے اور جس طرح ملک کے ایک مقبول سیاسی رہنما جیل میں بیٹھ کر آئے روز کوئی نہ کوئی دھرنا، احتجاج اور سول نافرمانی کی کال دیتے ہیں اس سے شہباز سرکار پہلے سے ہی لڑکھڑا رہی ہے لیکن یہ فیصلہ بالآخر مقتدرہ ہی کر سکتی ہے کہ یہ سیٹ اپ کب تب چلے گا۔

پروفیسر طاہر ملک نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی سنجیدہ ہے اور وہ واقعی شہباز سرکار کو ختم کرنا چاہتی ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر حکمران ن لیگ کی اتحادی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک اتفاق رائے پیدا کے اور معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ آگے لے کر بڑھے۔

برصغیر میں سول نافرمانی کی تحریکوں کی تاریخ

1- گاندھی جی کی سول نافرمانی کی تحریک:

برصغیر کی تاریخ میں سول نافرمانی کی سب سے مشہور تحریک کا آغاز 1930 میں گاندھی جی نے برطانوی راج کے خلاف کیا۔

2- شیخ مجیب کی سول نا فرمانی کی تحریک:

مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن نے 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم کروانے کے لیے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی کال دی۔ اس تحریک کے دوران ڈھاکہ سمیت مشرقی پاکستان میں پہیہ جام ہو گیا۔ اس کے بعد فوجی آپریشن "سرچ لائٹ” کا آغاز کیا گیا۔

3- پاکستان نیشنل الائنس کی سول نافرمانی کی تحریک:

1977 میں بھٹو کے خلاف بننے والے اتحاد پاکستان نیشنل الائنس نے سول نافرمانی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا- 1977 کے انتخابات کے نتائج میں قومی اسمبلیوں کی 200 نشستوں میں 100 پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔ پی این اے نے 36 نشستیں جیتنے کے بعد نتائج کو مسترد کر دیا اور پھر سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔

4- 2014 میں عمران خان کی سول نافرمانی تحریک:

2014 میں بھی عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ جب تک وزیر اعظم نواز شریف مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک بجلی، گیس کے بل اور دیگر سرکاری واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن یہ تحریک مکمل ناکام ہو گئی کیونکہ اس سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔

Show More
Back to top button