بلاگزعوام کی آواز

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کہیں ہم اداس نسلیں تو نہیں بنتے جا رہے؟

سندس بہروز 

اکثر جب صبح میں رکشے میں کام کے لئے نکلتی ہوں تو مجھے رکشے کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ حالانکہ مجھے وہ سیٹ کچھ زیادہ پسند نہیں، مگر وہاں مجھے اپنا ایک پسندیدہ کام کرنے کا موقع ملتا ہے اور وہ ہے مشاہدہ۔

میں پیچھے آنے والے لوگوں کا بغور جائزہ لیتی ہوں۔ ایک چیز مجھے ان سب میں یکساں لگتی ہے اور وہ ہے ان کی اداس آنکھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اداس آنکھیں بہت کچھ بول رہی ہے۔ ان کے ماتھے کے بلوں سے مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ کچھ سوچ رہے ہیں چاہے وہ شاندار گاڑی میں بیٹھا کوئی افسر ہو، یا وہ ایک معمولی سا رکشہ ڈرائیور، چاہے وہ صبح سویرے بچوں کے اسکول کی ڈیوٹی کرنے والا ڈرائیور ہو یا دفتر جانے والا ایک موٹر سائیکل سوار۔ سب کے سب ایک ایسی سوچ میں گم ہوتے ہیں جس نے ان کے چہروں پر سنجیدگی طاری کی ہوتی ہے اور جس کی وجہ سے ان کے چہروں پر صبح کی تازگی نہیں ہوتی۔

نہ صرف سڑکوں پر چلنے والے یہ لوگ بلکہ جب میں اپنے کالج کی گاڑی میں بیٹھتی ہوں تو بھی یہی صورتحال ہوتی ہے۔ حالانکہ اس گاڑی میں جانے والے سب معلمات ہیں اور  یہ ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہے جس نے نئی نسل کو پروان چڑھانا ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جن سے ہماری قوم کے نوجوان بے پناہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے پر بھی ایسی ہی بیزاری پائی جاتی ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آخر کیا چیز صبح ہی صبح ان کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔ کیا یہ کوئی کاروباری یا دفتری معاملہ ہے یا یہ رشتوں کی طرف سے بے سکونی ہے، بچوں کی فیس دینی ہے یا گھر کے خرچے کی فکر ہے، بیٹی کا داخلہ کالج میں کرنا ہے یا بیٹے کو نئے کپڑے دینے ہیں اور اس جیسی ہزاروں خواہشیں اور ضرورتیں جو صبح ہی صبح ان خوبصورت چہروں کی تازگی چھین کر ان کو مرجھائے ہوئے پھولوں کے مانند بناتی ہے۔

ان اساتذہ کرام کو دیکھ کر تو مجھے پریشانی ہوتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ کیا یہ نوجوان ان مرجھائے ہوئے مفکر چہروں سے متاثر ہو پائیں گے؟ کیا کہیں انجانے میں ہم ان کو ورثے میں یہ فکریں اور پریشانیاں تو نہیں دے رہے ہیں؟

میں مانتی ہوں کہ ہم سب کی زندگیاں پریشانیوں سے بھری پڑی ہیں اور ہر ایک کو دوسرے کی پریشانی پریشانی نہیں دکھتی کیونکہ اس کو لگتا ہے کہ میری پریشانیاں زیادہ بڑی ہے۔

اب اس کا نتیجہ کیا ہونا چاہیے۔ کیا یہ کہ ہم ہر وقت اداس رہیں اور زندگی میں موجود فکروں کو اپنے اوپر اس قدر حاوی کریں کہ خوشیوں سے مسکراہٹوں کا حق چھین لیں یا انہی پریشانیوں میں گر کر ہم خوشیوں کو اپنے دروازے پر دستک دینے کا موقع ہی نہ دیں؟

زندگی ایسے نہیں گزرتی۔ اور اللہ نے خود قرآن میں فرمایا ہے کہ ہم انسان پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تو یقیناً ہم جن پریشانیوں کا سامنا کر رہے ہیں وہ ہماری قوت برداشت سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں فکر کو اپنے ذہن کے ایک گوشے میں دھکیل کر ہم زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔  دن کے آخر میں اگر ہم پریشانیوں کو خود پر حاوی کریں تو ٹھیک ہے، کم از کم دن کا آغاز تو ہم خوش باش ہو کر کریں۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ کہیں ہم اداس نسلیں تو نہیں بنتے جا رہے؟ اگر نہیں سوچا تو ذرا اس بات پر غور کریں، ایک دوسرے کے ساتھ مثبت رویہ اپنائے اور ہو سکے تو خود پر بھی توجہ دے اور خوش رہے، ساتھ  ساتھ اپنے پیاروں کو بھی خوش رکھے۔

 

Show More

Sundas Behroz

سندس بہروز انگریزی لٹریچر میں ماسٹرز کر رہی ہیں اور سماجی موضوعات پر بلاگز بھی لکھتی ہیں

متعلقہ پوسٹس

Back to top button