نامناسب ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنا ایک قانونی جرم ہے، قانونی ماہرین
رفاقت اللہ رزڑوال
"میری ویڈیو تو پہلے ہی سے شیئر ہوئی ہے، آپ اُسے کسی کو بھیجیں یا نہ بھیجیں اس سے فرق نہیں پڑتا لیکن جس نے ایک انسان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ اُن کا 70 دفعہ پردہ پوشی فرمائے گا”۔
یہ خیبرپختونخوا کے خواجہ سرا ڈولفن ایان علی کا کہنا ہے جن کی منگل کی رات سے سوشل میڈیا پر مسلسل ایک برہنہ ویڈیو شئیر ہو رہی ہے۔ متاثرہ خواجہ سرا ڈولفن ایان علی کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے ایک شخص بندوق ہاتھ میں تھامے موبائل فون کے ذریعے اُن کو برہنہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ مذکورہ خواجہ سرا بے پردہ ہونے کی جھجھک محسوس کر رہی ہے مگر بندوق بردار بتا رہا ہے ‘پستول لوڈڈ ہے اور گولی ماردوں گا’۔
ڈولفن ایان علی نے خواجہ سراؤں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں وائس پیغام کے ذریعے بتایا ہے کہ عام لوگوں سے زیادہ خواجہ سرا اُن کی ویڈیو پھیلاتے ہیں مگر میرا اُن خواجہ سراؤں سے عاجزانہ سی درخواست ہے کہ دو سال پرانی ویڈیو پھیلانے سے گریز کیا جائے، ہمیں یہ زیب نہیں دیتی کہ خواجہ سراؤں کی ویڈیوز پھیلائیں، نہ ہمیں خواجہ سراؤں کی ویڈیوز پھیلانی چاہیئے اور نہ عام لوگوں کی”۔
اُن کا کہنا تھا "میرے پاس بھی کئی لوگوں کی ویڈیوز آتی ہیں مگر اُس کو دیکھ کر دُکھ ہو رہا ہے اور ہٹا دیتی ہوں بہرحال میں اتنی کمزور نہیں ہوں کہ اس قسم کی ویڈیوز سے میں ہار مان لوں گی اور پیچھے ہٹوں گی”۔
خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں کی نمائندہ تنظیموں نے لیک ویڈیو کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ بھر میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد اور اُن کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھنا ایک عام سی بات بن گئی کیونکہ یہاں نہ صرف وہ عدم تحفظ کے شکار ہیں بلکہ اُن کے ملزمان کو سزا بھی نہیں ملتی۔ اس سے پہلے 21 اکتوبر کو ضلع مردان میں پولیس لائن کے قریب نجی پلازہ کے بالاخانہ میں چھریوں کے وار سے دو خواجہ سرا قتل ہوچکے ہیں۔
پشاور میں خواجہ سراؤں کی حقوق کیلئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کی صدر فرزانہ ریاض کہتی ہے کہ صوبہ بھر میں خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد اور اُن کی ہتک کے واقعات ایک معمول کی بات بن چکی ہے جس سے درجنوں خواجہ سراؤں نے صوبے کو خیرآباد کہہ کر باہر کے ممالک یا پنجاب میں پناہ لے لی ہے۔
انہوں نے ڈولفن ایان کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا ” یہ ویڈیو پرانی ہے اور یہ اس لئے بنائی گئی تھی کہ اس کے ذریعے بلیک میل کرکے بھتہ وصول کیا جائے اور اب تک وہ اس ویڈیو کے سر پر لاکھوں روپے کا بھتہ دے بھی چکی ہے”۔
فرزانہ ریاض کہتی ہے ” پشاور میں ایسے درجنوں خواجہ سرا ہیں جن کو برہنہ کرکے ویڈیوز بن چکے ہیں اور ویڈیو بننے کے بعد مجھے بھیج بھی دیئے گئے جس کے ذریعے ہم سے بھتے کی وصولی اور ملزمان کے ناجائز مطالبات نتھی ہوتے ہیں”۔
فرزانہ نے بتایا کہ نازیبا ویڈیو پشاور کے نواحی علاقے پھندو میں بنائی گئی ہے جس میں ڈالفن ایان کو ملزم کا بھی علم ہے مگر ویڈیو بننے کے بعد خواجہ سرا خاموش رہتے ہیں اور وہ ملزمان کے خلاف کاروائی کیلئے درخواست نہیں دائر کرتے جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ملزمان کے خلاف کاروائی کا آغاز ہوا تو اُن کی ویڈیو لیک ہو جائے گی جس سے اُن کو اپنی خاندان کی طرف سے بھی دھمکیاں ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات کے خلاف کئی ایف آئی آرز بھی موجود ہیں مگر آج تک کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ملی ہے اور نہ کسی حکومتی عہدیدار نے ایسے واقعات کی مذمت تک کی بیان سامنے آئی ہے جس سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ٹرانس ایکشن الائنس کے اعداو شمار کے مطابق سال 2015 سے نومبر 2024 تک خیبرپختونخوا میں 145 خواجہ سرا قتل کئے جا چکے ہیں مگر تاحال کسی بھی ملزم کو قتل کی سزا نہیں ملی ہے۔ ڈولفن ایان کی ویڈیو لیک ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی سخت ردعمل اور مذمت کا اظہار ہو رہی ہے جس میں ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا ڈاکٹر مہروب اعوان نے ایکس پر ڈولفن ایان علی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم نے ایک ٹوٹی پھوٹی کمیونٹی کے طور پر وہ سب کچھ کیا جو ہم کرسکتے تھے۔ کہتی ہے "ہم نے پوڈکاسٹ کئے، میڈیا سے بات کی، کتابیں لکھیں، حکمرانوں کو بیلا وائلنس (جسمانی تشدد) کے بارے میں بتایا مگر وہ منظم ہیں”۔
مہروب کہتی ہے کہ انہوں نے خود اعداد و شمار پیش کئے ہیں، پشاور اور مردان میں مجرموں کی پروفائلنگ کر کے نشاندہی کی ہے۔ ہم نے لفظی طور پر کاغذات لکھے ہیں، پوڈ کاسٹ کئے ہیں، کتاب کے ابواب کیے ہیں، اور میڈیا اور حکام سے "بیلا تشدد” کے بارے میں بات کی ہے اور یہ کتنا منظم ہے۔
کہتی ہے کہ ڈولفن ایک سال قبل خود گولیوں کا نشانہ بنی تھی، ایک ماہ قبل وہ سڑکوں پر احتجاج کر رہی تھی مگر یہ کب ختم ہوگا، خیبرپختونخوا میں کمیونٹی سے کیا توقع رکھیں کہ نسل کشی کب ختم ہوگی”؟
قانونی ماہرین کے مطابق پرانے جرم کی ایف آئی آر ہوسکتی ہے بشرط یہ کہ متاثرہ شخص متعلقہ تھانہ میں درخواست دائر کردیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ واقعے میں دفعہ 354 اے (برہنہ کرکے گھمانا پھرانا) اور 506 (بندوق کی نوک پر ڈرانا دھمکانا) کے تحت ایف آئی آر ہوسکتی ہے، جس کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہوسکتی ہے۔