ہم ضعیف قرآن پاک یا اوراق کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں ؟
سعدیہ بی بی
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم الشان کلام ہے جو انسانوں کی ہدایت کے لئے خالق کائنات نے اپنے آخری رسول ﷺ پر نازل فرمایا۔ قرآن کریم وہ ابدی ہدایت ہے جو انسان کو با مقصد زندگی گزارنے کا شعور اور زندگی کے تمام شعبوں کے لئے مکمل رہنمائی دیتی ہے ۔ اس کا بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پوری نوع انسانی کے لئے مکمل اور آخری ضابطہ حیات بنا کر تا قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود اٹھایا ہے ۔ قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی ۔
لیکن آج کل ایسا دور چل رہا ہے کہ قرآن مجید صرف الماری میں سجنے کی حد تک رہ گیا ہے ۔ لمبے لمبے عرصے تک وہ دھول مٹی کی نظر رہتا ہے، لیکن کوئی اسے اٹھا کر پڑھنے کی زحمت نہیں کرتا ۔ جب وہ پوری طرح بوسیدہ ہو جاتے ہیں تو انہیں اٹھا کر مسجدوں میں بھیج دیا جاتا ہے یا گلی میں آئے ہوئے معمولی فقیر کو چینی یا آٹے کی عوض دے دیا جاتا ہے ۔ اکثر تو دیکھا جاتا ہے کہ قران مجید یا پارے کے کچھ ضعیف اوراق کسی کباڑی کی دکان پر یا سڑک پر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
ہم تو رسول ﷺ کی امت ہے ہم پر تو قرآن مجید کی حفاظت کرنا فرض بنتا ہے لیکن ہم مسلمان ہو کر یہ گستاخیاں کر بیٹھتے ہیں، ایسا کیوں؟ جب باہر کے کسی ملک میں قرآن مجید کو شہید کیا جاتا ہے تو ہم سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ اس بندے نے گستاخی کی ہے لیکن جب بات اپنی ہو تو ہمیں اپنا کیا ہوا نظر ہی نہیں آتا۔ ہمیں یہ کیوں نہیں دکھتا کہ ہم مسلمان ہو کر اس کی حفاظت نہیں کر پا رہے۔ ضعیف ہونے کی صورت میں ہم ایسے عمل کر بیٹھتے ہیں ہم خود بھی گستاخی کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔
کچھ سوالات میرے ذہن میں گردش کرتے رہے ۔ وہ یہ تھے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اگر ہم سے کوئی قرآن مجید ضعیف ہو جائے تو ہم اس کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا اسے دفن کرنا جائز عمل ہے، دریا یا سمندر میں پھینک دینا جائز عمل ہے یا اسے شہید کر دینا چاہیئے؟ انہی سوالات کو ذہن میں لئے میں نے ایک کاغذ پر اپنی وہ تمام تر تفصیل درج کر دی جن کے جواب کی میں طلبگار تھی اور یہ کاغذ میں نے اپنے بھائی کے ہاتھ مدرسے کے قاری ” قاری عبید ” جو کہ عالم بھی ہے، جن کے پاس دور دور سے لوگ آتے ہے، ان کی طرف بھجوا دیا۔ دو دن کے انتظار کے بعد آخر کار مجھے میرے سارے سوالات کے جوابات کاغذ پر درج مل گئے ۔
قاری عبید کا کہنا تھا کہ ایسے کچھ عمل ہیں جن سے ہم بوسیدہ قرآن مجید یا اوراق کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر قرآن مجید کے اوراق پرانے ہوجائیں تو اس کی جلد بندی کر کے قرآن مجید کو قابل استعمال بنائیں۔ یہ نیکی کا کام ہے جس پر اللہ تعالی سے اجر کی امید ہے۔
اگر مصحف اس قدر پرانا ہو جائے کہ اس سے فائدہ حاصل کرنا ممکن نہ رہے تو اسے تلف کیا جائے، تلف کرنے کی کیفیت اور صورت میں سب سے بہترین عمل یہ ہے کہ اسے کسی صاف کپڑے میں لپیٹ کر ایسی جگہ دفن کیا جائے جسے پیروں سے روندا نہ جاتا ہو ۔ اس کے لئے لحد یعنی (گھڑے) کی جانب بل نما بنا کر اسے دفن کیا جائے، کیونکہ اس کے بغیر دفن کرنے کی صورت میں قرآن مجید کےاوپر مٹی ڈالی جائے گی، جس میں ایک گناہ تحقیر ہے۔
تا ہم اگر اس گھڑے کے اوپر چھت نما بنائی جائے جس سے مٹی اندر نہ جائے تو یہ اچھی اور بہترین صورت ہے، نیز قرآن کریم کو دفن کرنے میں اس کی اہانیت نہیں بلکہ اکرام ہے تاکہ وہ بے اکرامی سے بچ سکے۔ اس کو دفن کرنا مکروہ نہیں ہے، مناسب ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ قرآن مجید کے اوراق کو پانی میں بہانے کی صورت میں اس بات کا دھیان رہے کہ یہ اوراق زیادہ گہرے پانی میں بہائے جائیں اس کے لئے بہتر ہے کہ بحری جہازوں کے ذریعے انہیں گہرے سمندر میں بہایا جائے ، اسی طرح اگر دریا کے اس حصے میں یہ اوراق بہانا درست ہے جو زیادہ گہرے ہیں، جن میں اوراق ڈھلنے سے یہ اندیشہ نہیں کہ وہ کنارے پر آجائیں گے تب ہی انہیں دریا میں بہایا جائے۔
البتہ دریا کے کم گہرے پانی میں اور ندی میں یہ اوراق بہانا جائز نہیں ، کیونکہ کم گہرے پانی میں ڈالنے کے بعد وہ کنارے پر آ جائیں گے ، جس سے ان کی تحقیر و توہین ہوگی ۔ اگر ان اوراق میں دھلنے کی صلاحیت ہو تو ان اوراق کو صاف پانی سے دھو کر اس پانی کو کسی کنویں وغیرہ میں ڈال دیا جائے ۔ رہی بات جلانے کی تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ قرآن مجید کے بوسیدہ اوراق کو جلانا نہیں چاہیئے ، بلکہ دفن کر دینا چاہیئے ۔