حلالہ سنٹرز: خواتین کے حقوق اور اسلامی تعلیمات کی پامالی
حمیرا علیم
جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین مختلف مہینوں یا اوقات میں تین طلاقیں دے دے تو اسے رجوع کا حق نہیں رہتا۔ اب اگر وہ شخص سابقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو خاتون کو کسی اور مرد سے نکاح کرنا ہو گا۔ اگر وہ شخص مر جائے یا اپنی مرضی سے اس خاتون کو طلاق دے دے تو عدت کے بعد وہ سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے. اس کو حلالہ کہتے ہیں۔
یہ ایک جائز عمل ہے لیکن اگر کوئی شوہر طلاق کے بعد کسی مرد کو پیسے دے یا اس سے یہ طے کر لے کہ وہ اس مطلقہ سے چند دن کے لئے نکاح کرے اور پھر اسے طلاق دے دے تو یہ حلالہ نہیں کہلاتا بلکہ زنا ہے، نکاح متعہ ہے۔جو کہ اسلام میں جائز نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ :”حلالہ کرنے والے اور کرانے والے دونوں پر اللہ نے لعنت کی ہے۔”
لیکن پاکستانیوں اور نام نہاد لوگوں نے حلالہ کو بھی مذاق بنا لیا ہے۔ لوگ طلاق دے کر رستہ تلاش کرتے ہیں اور لا علم مولویوں کے پاس جاتے ہیں جو ایک دن کے نکاح کے عوض پیسے لے کر حلالہ کر لیتے ہیں۔ اور یہ پریکٹس لاہور، کراچی راولپنڈی جیسے بڑے شہروں سمیت کئی چھوٹے علاقوں میں بھی جاری ہے۔
علامہ عبدالقیوم ظہیر بتاتے ہیں کہ:” بڑے بڑے مدارس اور مفتی بھی اس گناہ میں ملوث ہیں۔ پاکستانی اسلامی نظریاتی کونسل یہ طے کر چکی ہے کہ ایک نشست میں تین طلاق دینے والے کو چھ ماہ قید اور اسٹامپ لکھنے والے کو بھی سزا ملے گی۔ ایسے حلالہ سینٹرز والے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم آپ کا گھر بسا رہے ہیں، جب کہ درحقیقت وہ اپنی ہوس پوری کر رہے ہوتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے مرد کو کرائے کا سانڈ قرار دیا ہے۔ مرد عورت کے ساتھ طلاق دے کر زیادتی کرتا ہے۔ عورت پہلے ہی مظلوم ہے، دوسرا ظلم یہ کیا جا رہا ہے کہ کسی بکری کی طرح کبھی اس کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے تو کبھی اس کھونٹے سے۔ وہ تو ٹوٹ جاتی ہے اور کبھی پہلے شوہر کے ساتھ مطمئن زندگی نہیں گزار سکتی۔ آپ کسی کا جوٹھا پانی نہیں پیتے مگر اپنی بیوی ایکسچینج کر لیتے ہیں اللہ سے ڈریے
ایسے پری پلانڈ حلالے پر دور صحابہ میں حد قائم کی جاتی تھی۔ ٹاؤن شپ لاہور میں ایک مولوی صاحب ایک بچے کے ساتھ پھر رہے ہوتے ہیں اور بچے کو حلالہ کی برکت بتاتے ہیں۔ یہ کون سا دین ہے کیا کوئی غیرت مند شخص اپنی بیوی کا نکاح بھی کسی سے کر سکتا ہے؟ایسے حلالہ سینٹرز کو بے نقاب کر کے خواتین کی عزتیں بچانا چاہیئے۔
ایک خاتون کے سابقہ شوہر راولپنڈی کی عرشی مسجد کے مفتی صاحب کے پاس طلاق کا فتوی لینے پہنچے اور مفتی صاحب نے انہیں حلالہ کی آفر کر دی مگر خاتون نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایسے مرد کے لئے میں اتنا بڑا گناہ نہیں کر سکتی جو صرف اپنی ماں کے کہنے پر بنا کسی وجہ کے مجھے طلاق دے چکا ہے۔
پچھلے ماہ ایک ڈرامہ ‘من جوگی’ اسی موضوع پر بنایا گیا تھا۔ بعض اوقات لوگ کسی نوکر یا جاننے والے سے حلالہ کرواتے ہیں اور وہ شخص طلاق دینے سے مکر جاتا ہے، ایسی صورت میں بھی اذیت خاتون کے لئے ہی ہوتی ہے جو اپنے بچوں سے دور کر دی جاتی ہے اور اپنی فیملی یا سسرال کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتی۔
اس لئے مرد حضرات اپنے غصے پر قابو رکھیں اور عورت کو اذیت دینے یا سبق سکھانے کے لئے بات بات پر طلاق نہ دیں۔کیونکہ گھر ٹوٹنے پر تکلیف دونوں فریقین کو ہی ہوتی ہے مگر زندگیاں بچوں کی تباہ ہو جاتی ہیں اور اگر یہ قبیح فعل سر انجام دے ہی دیں تو اسلامی طریقے کے مطابق خاتون کو احسن طریقے سے جدا کر دیں ایک اور گناہ ، حلالہ، کر کے اسے مزید تکلیف نہ پہنچائیں۔
اور مسائل کے حل کے لئے ان مفتیان و علماء سے رجوع کریں جو قرآن حدیث کے حوالے دے کر لکھا ہوا فتوی دیں۔ نام نہاد مفتیان و مولویوں کے ہاتھوں اپنی عاقبت نہ بگاڑیں۔