بلاگزعوام کی آواز

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ پاکستان اور عوام کا برتاؤ، کیا ایسا رویہ مناسب ہے ؟

حمیرا علیم

ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کون واقف نہیں دنیا بھر میں مشہور مبلغ اور مناظر ڈاکٹر ذاکر چند دن پہلے حکومت پاکستان کی دعوت پر اپنے بیٹے شیخ فارق اور ٹیم کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ان کے لیکچرز کے سیشنز رکھے گئے، جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور ان لیکچرز کے اختتام پر سوال جواب کا وقت بھی دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر ایک پشتون لڑکی، چند یوٹیوبرز اور دیگر افراد کے سوالات گردش کر رہے ہیں۔ جن کے جوابات کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ذرا سی عقل رکھنے والے لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ جوابات بالکل درست تھے مگر جنہیں دوسروں کی آنکھ کا بال بھی شتہیر لگتا ہے اور جن کا کام ہی تنقید و بحث ہے ان کے ہاتھ ایک مشغلہ لگ گی کہ ڈاکٹر صاحب کو نہ سوال سمجھ آیا، نہ ہی جواب دینے کا ڈھنگ آتا ہے، اس لیے لڑکی کو ڈانٹ کر چپ کروا دیا۔ ان سب کو شاید علم نہیں کہ جب قرآن پر اختلافات کے الزام لگے تو  نو سال تک پوری دنیا کے کسی عالم یا محقق کو اس کا جواب دینے کی توفیق نہ ہوئی تو یہ ڈاکٹر ذاکر تھے جنہوں نے ولیم کمپبیل کو جواب دیئے۔

ہم پاکستانی قوم اس قدر ویلی ہیں کہ بس شغل میلے میں ہی لگے رہتے ہیں، اس لیے نہیں جانتے کہ علماء سے بات کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ صحابہ کرام فرماتے تھے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درس کے دوران اس قدر خاموش بیٹھتے تھے کہ پرندے ہمیں مجسمے سمجھ کر ہمارے سروں پر بیٹھ جاتے تھے۔آئمہ کرام کے اسٹوڈنٹس ان کے احترام میں اس وقت تک نہیں بولتے تھے جب تک اجازت نہ مل جائے اور یہ اصول تو ایک پلے گروپ کا بچہ بھی جانتا ہے کہ ہاتھ کھڑا کر کے استاد کی اجازت لے کر بات کرنی چاہیئے لیکچر میں مداخلت کرنا بے ادبی ہے۔

مگر ہم پاکستانی سارے ادب آداب صرف دوسروں کے لیے روا رکھتے ہیں خود تمام اصولوں سے ماورا ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے سوالات دین کے علم اور عمل کے طریقوں پر کئے جانے کی بجائے ان سے یہ پوچھا جا رہا تھا کہ ہمارے ہاں اسلامی ملک ہونے کے باوجود زنا، نشہ، ہم جنس پرستی عام کیوں ہے اور اس پر قانون حکومت قدغن کیوں نہیں لگاتے۔ یہ سوال ان کی بجائے ان اعمال کر کرنے والوں، حکمرانوں اور پولیس سے کیا جانا چاہیئے تھا اور جواب سننے کے بعد اگلا سوال کیا جانا چاہیئے تھا مگر ہر سائل شاید ڈاکٹر صاحب کو اپنا لنگوٹیا سمجھ رہا تھا اور ڈرائنگ روم ڈسکشن کے موڈ میں تھا۔ڈاکٹر صاحب کو انڈیا امریکہ سمیت دنیا بھر میں ملحدین سے بھی ایسے فضول سوالات اور گستاخانہ رویہ نہیں ملا ہو گا جیسا پاکستان میں ملا۔

جب انہوں نے دلیل کے ساتھ تسلی بخش جواب دئیے اور دوران گفتگو ٹوکنے پر پورا جواب سننے کا  مشورہ دیا تو خود کو ان سے بڑے علماء سمجھنے والوں کو گراں گزرا۔ انہوں نے بجائے جواب مان کر اپنی تصحیح کرنے کے ڈاکٹر صاحب کی تضحیک کی ناکام کوشش کی اور ان پر تنقید کرنے والے سب لوگ وہ تھے جو دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ اگر انہیں اپنے فرقوں کی بڑائی اور اچھائی بیان کرنے اور دوسروں کی تذلیل سے فرصت ملتی تودیکھتے کہ ہر مکتبہ فکر اور مسلک کے علماء نے ڈاکٹر صاحب کو عزت دی اور ان کے لیکچرز سنے۔

ہم صرف نام کے مسلمان ہیں اور نام کی مسلم اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں ورنہ تو ہر حرام یہاں رائج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و آداب بھی سیکھیں اور بقول ڈاکٹر صاحب کے میں کی بجائے ہم پر فوکس کریں۔ ورنہ تفرقہ بازی کا شکار ہو کر یونہی ذلیل ہوتے رہیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button